Tafseer-e-Usmani - Al-Kahf : 20
اِنَّهُمْ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ یَرْجُمُوْكُمْ اَوْ یُعِیْدُوْكُمْ فِیْ مِلَّتِهِمْ وَ لَنْ تُفْلِحُوْۤا اِذًا اَبَدًا
اِنَّهُمْ : بیشک وہ اِنْ يَّظْهَرُوْا : اگر وہ خبر پالیں گے عَلَيْكُمْ : تمہاری يَرْجُمُوْكُمْ : تمہیں سنگسار کردیں گے اَوْ : یا يُعِيْدُوْكُمْ : تمہیں لوٹا لیں گے فِيْ : میں مِلَّتِهِمْ : اپنی ملت وَلَنْ تُفْلِحُوْٓا : اور تم ہرگز فلاح نہ پاؤ گے اِذًا : اس صورت میں اَبَدًا : کبھی
وہ لوگ اگر خبر پالیں تمہاری پتھروں سے مار ڈالیں تم کو یا لوٹا لیں تم کو اپنے دین میں اور تب تو بھلا نہ ہوگا تمہارا کبھی3
3 جس طرح اپنی قدرت سے اتنی لمبی نیند سلایا تھا، اسی طرح بروقت جگا دیا۔ اٹھے تو آپس میں مذاکرہ کرنے لگے کہ ہم کتنی دیر سوئے ہوں گے ؟ بعض نے کہا " ایک آدھ دن۔ " یعنی بہت کم۔ دوسرے بولے کہ (اس بےفائدہ بحث میں پڑنے سے کیا فائدہ ؟ ) یہ تو خدا ہی کے علم میں ہے کہ ہم کتنی مدت سوئے۔ اب تم اپنا کام کرو۔ ایک آدمی کو یہ روپیہ دے کر شہر بھیجو کہ وہ کسی دکان سے حلال اور ستھرا کھانا دیکھ کر خرید لائے۔ یہ ضروری ہے کہ اسے نہایت ہوشیاری سے جانا آنا اور نرمی و تدبیر سے معاملہ کرنا چاہیے کہ کسی شہر والے کو ہمارا پتہ نہ لگے، ورنہ بڑی سخت خرابی ہوگی۔ اگر ظالم بادشاہ کو پتہ چل گیا تو ہم کو یا سنگسار کیا جائے گا یا بجبر واکراہ دین حق سے ہٹایا جائے گا۔ العیاذ باللہ ایسا ہوا تو جو اعلیٰ کامیابی و فلاح ہم چاہتے ہیں، وہ کبھی حاصل نہ ہو سکے گی۔ کیونکہ دین حق سے پھرجانا گو بجبرو اکراہ ہو اولو العزم مومنین کا کام نہیں ہوسکتا (تنبیہ) میرے نزدیک " یَوْماً اَوْبَعْضَ یَوْمٍ " محض تقلیل مدت سے کنایہ ہے۔ نیند سے اٹھ کر اتنی طویل مدت بھی ان کو قلیل محسوس ہوئی۔ سچ ہے " مردہ اور سوتا برابر ہے " " یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ " کا حرف " اَوْ " کے ساتھ استعمال ایسا سمجھو جیسے سورة مؤمنون میں ہے (كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِيْنَ 112؁ قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَسْـَٔـــلِ الْعَاۗدِّيْنَ 113؁) 23 ۔ المؤمنون :113-112)
Top