Tafseer-e-Usmani - Al-Kahf : 46
اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًا
اَلْمَالُ : مال وَالْبَنُوْنَ : اور بیٹے زِيْنَةُ : زینت الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَالْبٰقِيٰتُ : اور باقی رہنے والی الصّٰلِحٰتُ : نیکیاں خَيْرٌ : بہتر عِنْدَ رَبِّكَ : تیرے رب کے نزدیک ثَوَابًا : ثواب میں وَّخَيْرٌ : اور بہتر اَمَلًا : آرزو میں
مال اور بیٹے رونق ہیں دنیا کی زندگی میں اور باقی رہنے والی نیکیوں کا بہتر ہے تیرے رب کے یہاں بدلہ اور بہتر ہے توقع2
2 یعنی مرنے کے بعد مال و اولاد وغیرہ کام نہیں آتے صرف وہ نیکیاں کام آتی ہیں جن کا اثر یا ثواب آئندہ باقی رہنے والا ہو۔ حدیث میں " سُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہ وَلَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا باللّٰہِ " ان کلمات کو باقیات صالحات فرمایا۔ یہ محض مثال کے طور پر ہے۔ ورنہ تمامی اعمال حسنہ اس میں داخل ہیں۔ موضح القرآن میں ہے۔ " رہنے والی نیکیاں یہ کہ علم سیکھا جائے جو جاری رہے یا کوئی نیک رسم چلا جائے یا مسجد، کنواں، سرائے، کھیت وقف کر جائے یا اولاد کو تربیت کر کے صالح چھوڑ جائے، اسی قسم کے کام ہیں جن پر خدا کے ہاں بہترین بدلہ مل سکتا ہے اور انسان عمدہ توقعات قائم کرسکتا ہے۔ دنیا کی فانی و زائل خوشحالی پر لمبی چوڑی امیدیں باندھنا عقلمندی نہیں۔ "
Top