Tafseer-e-Usmani - Al-Kahf : 51
مَاۤ اَشْهَدْتُّهُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَا خَلْقَ اَنْفُسِهِمْ١۪ وَ مَا كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّیْنَ عَضُدًا
مَآ : نہیں اَشْهَدْتُّهُمْ : حاضر کیا میں نے انہیں خَلْقَ : پیدا کرنا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلَا خَلْقَ : نہ پیدا کرنا اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں (خود وہ) وَمَا كُنْتُ : اور میں نہیں مُتَّخِذَ : بنانے والا الْمُضِلِّيْنَ : گمراہ کرنے والے عَضُدًا : بازو
دکھلا نہیں لیا تھا میں نے ان کو بنانا آسمانوں اور زمین کا اور نہ بنانا خود ان کا اور میں وہ نہیں کہ بناؤں بہکانے والوں کو اپنا مددگار1
1 یعنی زمین و آسمان پیدا کرتے وقت ہم نے ان شیاطین کو بلایا نہ تھا کہ ذرا آکر دیکھ جائیں، ٹھیک بنا ہے یا کچھ اونچ نیچ رہ گئی۔ غرض نہ ان سے تکوین و ایجاد عالم میں کچھ مشورہ لیا گیا نہ مدد طلب کی گئی بلکہ زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت تو سرے سے یہ موجود ہی نہ تھے۔ خود ان کو پیدا کرتے وقت بھی نہیں پوچھا گیا کہ تمہیں کیسا بنایا جائے۔ یا تمہارے دوسرے ہم جنسوں کو کس طرح پیدا کروں ذرا آکر میری مدد کرو۔ اور بفرض محال مدد بھی لیتا اور قوت بازو بھی بناتا تو کیا ان بدبخت اشقیاء کو ؟ جنہیں جانتا ہوں کہ لوگوں کو میری راہ سے بہکانے والے ہیں۔ پھر خدا جانے آدمیوں نے ان کو خدائی کا درجہ کیسے دے دیا اور اپنے رب کو چھوڑ کر انھیں کیوں رفیق و مددگار بنانے لگے۔ " سُبْحَانَہ، وَتَعَالٰی عَمَّا یَقُوْلُ الظَّالِمُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا۔ "
Top