Tafseer-e-Usmani - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا تو خیال کرتا ہے کہ غار اور کھوہ کے رہنے والے ہماری قدرتوں میں عجب اچنبھا تھے9
9 یعنی حق تعالیٰ کی قدرت عظیمہ کے لحاظ سے اصحاب کہف کا قصہ جو آگے مذکور ہے کوئی اچنبھا نہیں جسے حد سے زیادہ عجیب سمجھا جائے۔ زمین، آسمان، چاند، سورج وغیرہ کا پیدا کرنا، ان کا محکم نظام قائم رکھنا، انسان ضعیف البنیان کو سب پر فضیلت دینا، انسانوں میں انبیاء کا بھیجنا، ان کی قلیل و بےسروسامان جماعتوں کو بڑے بڑے متکبرین کے مقابلہ میں کامیاب بنانا، خاتم الانبیاء اور رفیق غار حضرت ابوبکر صدیق کو دشمنوں کے نرغہ سے نکال کر " غار ثور " میں تین روز ٹھہرانا، کفار کا غار کے منہ تک تعاقب کرنا پھر انکو بےنیل و مرام واپس لوٹانا آخر گھر بار چھوڑنے والے مٹھی بھر بےسروسامانوں کو تمام جزیرۃ العرب بلکہ مشرق و مغرب میں اس قدر قلیل مدت کے اندر غالب و منصور کرنا، کیا یہ اور اس قسم کی بیشمار چیزیں " اصحاب کہف کے قصہ سے کم عجیب ہیں ؟ اصل یہ ہے کہ یہود نے قریش کو مشورہ دیا تھا کہ محمد ﷺ سے آزمائش کے لیے تین سوال کریں۔ روح کیا ہے ؟ اصحاب کہف کا قصہ کیا تھا ؟ اور ذوالقرنین کی سرگزشت کیا تھی ؟ اصحاب کہف کے قصہ کو عجیب ہونے کی حیثیت سے انہوں نے خاص اہمیت دی تھی۔ اسی لیے اس آیت میں بتلایا گیا کہ وہ اتنا عجیب نہیں جیسے تم سمجھتے ہو، اس سے کہیں بڑھ کر عجیب و غریب نشانات قدرت موجود ہیں۔ آگے " اصحاب کہف " کا قصہ اول مجملاً پھر مفصلاً بیان فرمایا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ چند نوجوان روم کے کسی ظالم وجابر بادشاہ کے عہد میں تھے، جس کا نام بعض نے " دقیانوس " بتلایا ہے۔ بادشاہ سخت غالی بت پرست تھا اور جبر واکراہ سے بت پرستی کی اشاعت کرتا تھا۔ عام لوگ سختی اور تکلیف کے خوف اور چند روزہ دنیاوی منافع کی طمع سے اپنے مذاہب کو چھوڑ کر بت پرستی اختیار کرنے لگے اور اس وقت چند نوجوانوں کے دلوں میں جن کا تعلق عمائدین سلطنت سے تھا، خیال آیا کہ ایک مخلوق کی خاطر خالق کو ناراض کرنا ٹھیک نہیں۔ ان کے دل خشیت الٰہی اور نور تقویٰ سے بھرپور تھے۔ حق تعالیٰ نے انھیں صبرو استقلال اور توکل و تبتل کی دولت سے انھیں مالامال کیا تھا۔ بادشاہ کے روبرو جا کر بھی انہوں نے ( لَنْ نَّدْعُوَا۟ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلٰـهًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا) 18 ۔ الکہف :14) کا نعرہ مستانہ لگایا اور ایمانی جرأت و استقلال کا مظاہرہ کر کے دیکھنے والوں کو مبہوت و حیرت زدہ کردیا۔ بادشاہ کو کچھ ان کی نوجوانی پر رحم آیا اور کچھ دوسرے مشاغل و مصالح مانع ہوئے کہ انھیں فوراً قتل کر دے۔ چند روز کی مہلت دی کہ وہ اپنے معاملہ میں غور و نظر ثانی کرلیں۔ انہوں نے مشورہ کر کے طے کیا کہ ایسے فتنہ کے وقت جب کہ جبرو تشدد سے عاجز ہو کر قدم ڈگمگا جانے کا بہرحال خطرہ ہے مناسب ہوگا کہ شہر کے قریب کسی پہاڑ میں رو پوش ہوجائیں (اور واپسی کے لیے مناسب موقع کا انتظار کریں) دعا کی کہ خداوندا تو اپنی خصوصی رحمت سے ہمارا کام بنا دے اور رشد و ہدایت کی جادہ پیمائی میں ہمارا سب انتظام درست کر دے۔ آخر شہر سے نکل کر کسی قریبی پہاڑ میں پناہ لی اور اپنے میں سے ایک کو مامور کیا کہ بھیس بدل کر کسی وقت شہر میں جایا کرے تاکہ ضروریات خرید کر لاسکے اور شہر کے احوال و اخبار سے سب کو مطلع کرتا رہے۔ جو شخص اس کام پر مامور تھا اس نے ایک روز اطلاع دی کہ آج شہر میں سرکاری طور پر ہماری تلاش ہے اور ہمارے اقارب و اعزہ کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ ہمارا پتہ بتلائیں۔ یہ مذاکرہ ہو رہا تھا کہ حق تعالیٰ نے ان سب پر دفعۃً نیند طاری کردی۔ کہا جاتا ہے کہ سرکاری آدمیوں نے بہت تلاش کیا پتہ نہ لگا۔ تھک کر بیٹھ رہے اور بادشاہ کی رائے سے ایک سیسہ کی تختی پر ان نوجوانوں کے نام اور مناسب حالات لکھ کر خزانہ میں ڈال دیئے گئے تاکہ آنے والی نسلیں یاد رکھیں کہ ایک جماعت حیرت انگیز طریقہ سے لا پتہ ہوگئی ہے۔ ممکن ہے آگے چل کر اس کا کچھ سراغ نکلے۔ اور بعض عجیب واقعات کا انکشاف ہو۔ یہ نوجوان کس مذہب پر تھے ؟ اس میں اختلاف ہوا ہے بعض نے کہا کہ نصرانی یعنی اصل دین مسیحی کے پیرو تھے۔ لیکن ابن کثیر نے قرائن سے اس کو ترجیح دی ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے پہلے کا ہے واللہ اعلم (تنبیہ) " رقیم " پہاڑی کی کھوہ کو کہتے ہیں اور بمعنی " مرقوم " بھی آتا ہے یعنی لکھی ہوئی چیز۔ مسند عبد بن حُمَید کی ایک روایت میں جسے حافظ نے علیٰ شرط البخاری کہا ہے، ابن عباس سے " رقیم " کے دوسرے معنی منقول ہیں۔ یعنی " اصحاب کہف " اور " اصحاب رقیم " ایک ہی جماعت کے دو لقب ہیں۔ غار میں رہنے کی وجہ سے " اصحاب کہف " کہلاتے ہیں اور چونکہ ان کے نام و صفت وغیرہ کی تختی لکھ کر رکھ دی گئی تھی، اس لیے " اصحاب رقیم " کہلائے۔ مگر مترجم محقق (رح) نے پہلے معنی لیے ہیں اور بہر صورت " اصحاب کہف " و " اصحاب رقیم " کو ایک ہی قرار دیا ہے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ " اصحاب رقیم " کا قصہ قرآن میں مذکور نہیں ہوا، محض عجیب ہونے کے لحاظ سے اصحاب کہف کے تذکرہ میں اس کا حوالہ دے دیا گیا۔ اور فی الحقیقت اصحاب رقیم (کھوہ والے) وہ تین شخص ہیں جو بارش سے بھاگ کر ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے تھے، اوپر سے ایک بڑا پتھر آپڑا، جس نے غار کا منہ بند کردیا اس وقت ان میں سے ہر شخص نے اپنی عمر کے مقبول ترین عمل کا حوالہ دے کر حق تعالیٰ سے فریاد کی اور بتدریج غار کا منہ کھل گیا۔ امام بخاری نے اصحاب کہف کا ترجمہ منعقد کرنے کے بعد حدیث الغار کا مستقل عنوان قائم کیا ہے اور اس میں ان تین شخصوں کا قصہ مفصل درج کر کے شاید اسی طرف اشارہ کردیا ہے کہ " اصحاب رقیم " یہ لوگ ہیں۔ طبرانی اور بزار نے باسناد حسن نعمان بن بشیر سے مرفوعاً روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ " رقیم " کا ذکر فرماتے تھے اور یہ قصہ تین شخصوں کا بیان کیا۔ واللہ اعلم۔
Top