Tafseer-e-Usmani - An-Noor : 12
لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا١ۙ وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ
لَوْلَآ : کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا ظَنَّ : گمان کیا الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتُ : اور مومن عورتوں بِاَنْفُسِهِمْ : (اپنوں کے) بارہ میں خَيْرًا : نیک وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا ھٰذَآ : یہ اِفْكٌ : بہتان مُّبِيْنٌ : صریح
کیوں نہ جب تم نے اس کو سنا تھا خیال کیا ہوتا ایمان والے مردوں پر اور ایمان والی عورتوں نے اپنے لوگوں پر بھلا خیال اور کہا ہوتا یہ صریح طوفان ہے7
7 مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی بہنوں کے ساتھ حسن ظن رکھے۔ اور جب سنے کہ لوگ ایک نیک شخص پر یوں ہی رجماً بالغیب بری تہمتیں لگاتے ہیں تو اپنے دل میں ایسے خیالات کو راہ نہ دے بلکہ ان کو جھٹلائے۔ پیغمبر ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی پیٹھ پیچھے بھائی مسلمان کی مدد کرے۔ اللہ پیٹھ پیچھے اس کی مدد کرے گا۔ بےتحقیق تہمتیں تراشنا ایمان سے بعید ہے۔ چاہیے کہ آدمی خود اپنی آبرو پر دوسروں کی آبرو کو قیاس کرلے۔ جیسا کہ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ وغیرہ نے قصہ " افک " میں کیا۔ ایک روز ان کی بیوی نے کہا کہ لوگ عائشہ صدیقہ کی نسبت ایسا کہتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ جھوٹے ہیں۔ کیا ایسا کام تو کرسکتی ہے ؟ بولی ہرگز نہیں۔ فرمایا پھر (صدیق کی بیٹی اور نبی ﷺ کی بیوی) عائشہ صدیقہ تجھ سے کہیں بڑھ کر پاک و صاف اور طاہر و مطہر ہیں، ان کی نسبت بےوجہ ایسا گمان کیوں کیا جائے۔
Top