Tafseer-e-Usmani - An-Noor : 21
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا١ۙ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے (مومنو) لَا تَتَّبِعُوْا : تم نہ پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان وَمَنْ : اور جو يَّتَّبِعْ : پیروی کرتا ہے خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ يَاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْفَحْشَآءِ : بےحیائی کا وَالْمُنْكَرِ : اور بری بات وَلَوْلَا : اور اگر نہ فَضْلُ اللّٰهِ : اللہ کا فضل عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت مَا زَكٰي : نہ پاک ہوتا مِنْكُمْ : تم سے مِّنْ اَحَدٍ : کوئی آدمی اَبَدًا : کبھی بھی وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ يُزَكِّيْ : پاک کرتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے ایمان والو نہ چلو قدموں پر شیطان کے اور جو کوئی چلے گا قدموں پر شیطان کے سو وہ تو یہی بتلائے گا بےحیائی اور بری بات10 اور اگر نہ ہوتا اللہ کا فضل تم پر اور اس کی رحمت تو نہ سنورتا تم میں ایک شخص بھی کبھی و لیکن اللہ سنوارتا ہے جس کو چاہے اور اللہ سب کچھ سنتا جانتا ہے1
10 یعنی شیطان کی چالوں سے ہوشیار رہا کرو۔ مسلمان کا یہ کام نہیں ہونا چاہیے کہ شیاطین الانس والجن کے قدم بقدم چلنے لگے۔ ان ملعونوں کا تو مشن ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بےحیائی اور برائی کی طرف لے جائیں۔ تم جان بوجھ کر کیوں ان کے بھرے میں آتے ہو۔ دیکھ لو شیطان نے ذرا سا چرکا لگا کر کتنا بڑا طوفان کھڑا کردیا اور کئی سیدھے سادھے مسلمان کس طرح اس کے قدم پر چل پڑے۔ 1 یعنی شیطان تو سب کو بگاڑ کر چھوڑتا ایک کو بھی سیدھے راستہ پر نہ رہنے دیتا۔ یہ تو خدا کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ وہ اپنے مخلص بندوں کی دستگیری فرما کر بہتیروں کو محفوظ رکھتا ہے اور بعض کو مبتلا ہوجانے کے بعد توبہ کی توفیق دے کر درست کردیتا ہے۔ یہ بات اسی خدائے واحد کے اختیار میں ہے اور وہ ہی اپنے علم محیط اور حکمت کاملہ سے جانتا ہے کہ کون بندہ سنوارے جانے کے قابل ہے اور کس کی توبہ قبول ہونی چاہیے۔ وہ سب کی توبہ وغیرہ کو سنتا اور ان کی قلبی کیفیات سے پوری طرح آگاہ ہے۔
Top