Tafseer-e-Usmani - Al-Ankaboot : 13
وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ١٘ وَ لَیُسْئَلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۠   ۧ
وَلَيَحْمِلُنَّ : اور وہ البتہ ضرور اٹھائیں گے اَثْقَالَهُمْ : اپنے بوجھ وَاَثْقَالًا : اور بہت سے بوجھ مَّعَ : ساتھ اَثْقَالِهِمْ : اپنے بوجھ وَلَيُسْئَلُنَّ : اور البتہ ان سے ضرور باز پرس ہوگی يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن عَمَّا : اس سے جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : وہ جھوٹ گھڑتے تھے
اور البتہ اٹھائیں گے اپنے بوجھ اور کتنے بوجھ ساتھ اپنے بوجھ کے5 اور البتہ ان سے پوچھ ہوگی قیامت کے دن جو باتیں کہ جھوٹ بناتے تھے6 
5 یعنی جھوٹے ہیں، تمہارا بوجھ رتی برابر بھی ہلکا نہیں کرسکتے۔ ہاں اپنا بوجھ بھاری کر رہے ہیں۔ ایک تو ان کے ذاتی گناہوں کا بار تھا، اب دوسروں کے اغواء واضلال کے بار نے اس میں مذید اضافہ کردیا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ " کوئی چاہے کہ رفاقت کر کے کسی کے گناہ اپنے اوپر لے لے، یہ نہیں ہوگا۔ مگر جس کو گمراہ کیا اور اس کے بہکائے سے اس نے گناہ کیا، وہ گناہ اس پر بھی اور اس پر بھی۔ " (موضح) جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ دنیا میں تو جو کوئی کسی کو (ناحق) قتل کرے، اس کے گناہ کا حصہ آدم کے پہلے بیٹے (قابیل) کو پہنچتا ہے جس نے اول یہ بری راہ نکالی۔ 6  یعنی جو جھوٹی باتیں بناتے ہیں کہ ہم تمہارا بوجھ اٹھا لیں گے، یہ خود مستقل گناہ ہے جس پر ماخوذ ہوں گے۔ آگے چند قصص کے ضمن میں متنبہ کیا گیا ہے کہ سچوں کے مقابلہ میں ہمیشہ سے جھوٹے اغواء اور شرارت کرتے رہیں اور سچوں کو مدتوں تک امتحان و ابتلاء کے دور میں سے گزرنا پڑا ہے۔ مگر آخری نتیجہ انہی کے حق میں بہتر ہوا، منکر اور شریر لوگ خائب و خاسر رہے سچے کامیاب و سربلند ہوئے۔ اشقیاء کے تمام مکائد تار عنکبوت سے زیادہ ثابت نہ ہوئے۔
Top