Tafseer-e-Usmani - Yaseen : 38
وَ الشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا١ؕ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِؕ
وَالشَّمْسُ : اور سورج تَجْرِيْ : چلتا رہتا ہے لِمُسْتَقَرٍّ : ٹھکانے (مقررہ راستہ لَّهَا ۭ : اپنے ذٰلِكَ : یہ تَقْدِيْرُ : نظام الْعَزِيْزِ : غالب الْعَلِيْمِ : جاننے والا (دانا)
اور سورج چلا جاتا ہے اپنے ٹھہرے ہوئے راستہ پر5 یہ سادھا ہے اس زبردست باخبر نے
5  سورج کی چال اور راستہ مقرر ہے اسی پر چلا جاتا ہے۔ ایک انچ یا ایک منٹ اس سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتا۔ جس کام پر لگا دیا ہے ہر وقت اس میں مشغول ہے۔ کسی دم قرار نہیں۔ رات دن کی گردش اور سال بھر کے چکر میں جس جس ٹھکانہ پر اسے پہنچنا ہے پہنچتا ہے۔ پھر وہاں سے باذن خداوندی نیا دورہ شروع کرتا ہے۔ قرب قیامت تک اسی طرح کرتا رہے گا۔ تاآنکہ ایک وقت آئے گا جب اس کو حکم ہوگا کہ جدھر سے غروب ہوا ہے ادھر سے واپس آئے یہی وقت ہے جب باب توبہ بند کردیا جائے گا۔ کما ورد فی الحدیث الصحیح۔ بات یہ ہے کہ اس کے طلوع و غریب کا یہ سب نظام اس زبردست اور باخبر ہستی کا قائم کیا ہوا ہے جس کے انتظام کو کوئی دوسرا شکست نہیں کرسکتا، اور نہ اس کی حکمت و دانائی پر کوئی حرف گیری کرسکتا ہے وہ خود جب چاہے اور جس طرح چاہے الٹ پلٹ کرے کسی کو مجال انکار نہیں ہوسکتی۔ (تنبیہ) اس آیت کی تفسیر میں ایک حدیث آئی ہے جس میں شمس کے تحت العرش سجدہ کرنے کا ذکر ہے۔ یہاں اس کی تشریح کا موقع نہیں۔ اس پر ہمارا مستقل مضمون " سجود الشمس " کے نام سے چھپا ہوا ہے۔ ملاحظہ کرلیا جائے۔
Top