Tafseer-e-Usmani - Al-Maaida : 86
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَكَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِاٰيٰتِنَآ : ہماری آیات اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَصْحٰبُ : ساتھی (والے) الْجَحِيْمِ : دوزخ
اور جو لوگ منکر ہوئے اور جھٹلانے لگی ہماری آیتوں کو وہ ہیں دوزخ کے رہنے والے1
1 ان آیات میں بتلایا گیا کہ یہود کا مشرکین سے دوستی کرنا محض اسلام اور مسلمانوں کی عداوت و بغض کی وجہ سے ہے۔ نبی کریم ﷺ کو جن اقوام سے زیادہ سابقہ پڑتا تھا ان میں یہ دونوں قومیں یہود اور مشرکین علی الترتیب اسلام و مسلمین کی شدید ترین دشمن تھیں۔ مشرکین مکہ کی ایذا رسانیاں تو اظہر من الشمس ہیں۔ لیکن ملعون یہود نے بھی کوئی کمینہ سے کمینہ حرکت اٹھا کر نہیں رکھی۔ حضور ﷺ کو بیخبر ی میں پتھر کی چٹان گرا کر شہید کرنا چاہا، کھانے میں زہر دینے کی کوشش کی، سحر اور ٹوٹکے کرائے، غرض غضب پر غضب اور لعنت پر لعنت حاصل کرتے رہے۔ اس کے بالمقابل نصاریٰ باوجودیکہ وہ بھی کفر میں مبتلا تھے، اسلام سے جلتے تھے، مسلمانوں کا عروج ان کو ایک نظر نہ بھاتا تھا، تاہم ان میں قبول حق کی استعداد ان دونوں گروہوں سے زیادہ تھی۔ ان کے دل اسلام اور مسلمانوں سے محبت کرنے کی طرف نسبتاً جلد مائل ہوجاتے تھے اس کا سبب یہ تھا کہ اس وقت تک " عیسائیوں " میں علم دین کا چرچا دوسری قوموں سے زائد تھا، اپنے طریقہ کے موافق ترک دنیا اور زاہدانہ زندگی اختیار کرنے والے ان میں بکثرت پائے جاتے تھے۔ نرم دلی اور تواضع ان کی خاص صفت تھی جس قوم میں یہ خصال کثرت سے پائی جائیں ان کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئیے کہ اس میں قبول حق اور سلامت روی کا مادہ دوسری اقوام سے زیادہ ہو کیونکہ قبول حق سے عموماً تین چیزیں مانع ہوتی ہیں جہل، حب دنیا یا حسد و تکبّر وغیرہ۔ نصاریٰ میں قسیسین کا وجود جہل کو، رہبان کی کثرت حب دنیا کو، نرمی دل اور تواضع کی صفت کبرو نخوت وغیرہ کو کم کرتی تھی چناچہ قیصر روم مقوقس مصر اور نجاشی ملک حبشہ نے جو کچھ برتاؤ نبی کریم ﷺ کے پیغام رسالت کے ساتھ کیا وہ اس کا شاہد ہے کہ اس وقت نصاریٰ میں قبول حق اور مودت مسلمین کی صلاحیت نسبتاً دوسری قوموں سے زائد تھی۔ مشرکین مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر جب ایک جماعت صحابہ ؓ نے " حبشہ " کو ہجرت کی اور مشرکین نے وہاں بھی ملک حبشہ کے دربار تک اپنا پروپیگنڈا نہ چھوڑا تو بادشاہ نے ایک روز مسلمانوں کو بلا کر کچھ سوالات کئے اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی نسبت بھی ان کا عقیدہ دریافت کیا۔ حضرت جعفر نے سورة مریم کی آیات پڑھیں اور اپنا عقیدہ صاف صاف بیان فرمایا۔ بادشاہ بےانتہا متاثر ہوا اور اقرار کیا کہ جو کچھ قرآن نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نسبت عقیدہ ظاہر کیا ہے وہ بلا کم وکاست صحیح ہے۔ اس نے کتب سابقہ کی بشارات کے موافق حضور پر نور ﷺ کی نبی آخرالزمان تسلیم کیا۔ قصہ طویل ہے انجام کار ہجرت کے کئی سال بعد ایک وفد جو ستر نو مسلم عیسائیوں پر مشتمل تھا نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں روانہ کیا۔ یہ لوگ جب مدینہ پہنچے اور قرآن کریم کے سماع سے لذت اندوز ہوئے تو کلام الہٰی سن کر وقف گریہ و بکا ہوگئے۔ آنکھوں سے آنسو اور زبان پر " رَبَّنَا اٰمنَّا " الخ یہ کلمات جاری تھے۔ ان آیات میں اسی جماعت کا حال بیان فرمایا ہے۔ قیامت تک کے لئے کوئی خبر نہیں دی گئی کہ ہمیشہ عیسائیوں اور یہود و مشرکین وغیرہ کے تعلقات کی نوعیت اسلام و مسلمین کیساتھ یہ ہی رہے گی۔ آج جو لوگ عیسائی کہلاتے ہیں ان میں کتنے قسیس و رہبان اور متواضع و منکسر المزاج ہیں اور کتنے ہیں جن کی آنکھوں سے کلام الہٰی سن کر آنسو ٹپک پڑتے ہیں جب اقربھم مودۃ کی علت ہی جو ( ۭذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَّاَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ :82) سے بیان کی گئی، موجود نہیں تو معلول یعنی " قرب موئدت " کیوں موجود ہوگا۔ بہرحال جو اوصاف عہد نبوی کے عیسائیوں اور یہود و مشرکین کے بیان ہوئے، وہ جب کبھی اور جہاں کہیں جس مقدار میں موجود ہونگے، اسی نسبت سے اسلام و مسلمین کی محبت و عداوت کو خیال کرلیا جائے۔
Top