بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Usmani - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے نبی تو کیوں حرام کرتا ہے جو حلال کیا اللہ نے تجھ پر چاہتا ہے تو رضامندی اپنی عورتوں کی7 اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان8
7  حلال کو اپنے اوپر حرام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس چیز کو عقیدۃً حلال و مباح سمجھتے ہوئے عہد کرلیا تھا کہ آئندہ اس کو استعمال نہ کروں گا۔ ایسا کرنا اگر کسی مصلحت صحیحہ کی بناء پر ہو تو شرعاً جائز ہے۔ مگر حضور ﷺ کی شان رفیع کے مناسب نہ تھا کہ بعض ازواج کی خوشنودی کے لیے اس طرح کا اسوہ قائم کریں جو آئندہ امت کے حق میں تنگی کا موجب ہو۔ اس لیے حق تعالیٰ نے متنبہ فرما دیا کہ ازواج کے ساتھ بیشک خوش اخلاقی برتنے کی ضرورت ہے۔ مگر اس حد تک ضرورت نہیں کہ ان کی وجہ سے ایک حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کر کے تکلیف اٹھائیں۔ 8  کہ گناہ کو معاف کردیتا ہے۔ اور آپ ﷺ سے تو کوئی گناہ بھی نہیں ہوا۔ محض اپنے درجہ میں ایک خلاف اولیٰ بات ہوئی۔
Top