Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (5045 - 5119)
Select Hadith
5045
5046
5047
5048
5049
5050
5051
5052
5053
5054
5055
5056
5057
5058
5059
5060
5061
5062
5063
5064
5065
5066
5067
5068
5069
5070
5071
5072
5073
5074
5075
5076
5077
5078
5079
5080
5081
5082
5083
5084
5085
5086
5087
5088
5089
5090
5091
5092
5093
5094
5095
5096
5097
5098
5099
5100
5101
5102
5103
5104
5105
5106
5107
5108
5109
5110
5111
5112
5113
5114
5115
5116
5117
5118
5119
مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 3113
وعن سعد بن أبي وقاص قال : رد رسول الله صلى الله عليه و سلم على عثمان ابن مظعون التبتل ولو أذن له لاختصينا
تبتل کی ممانعت
اور حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعون کو تبتل (یعنی نکاح ترک کرنے) سے منع کردیا تھا اگر آنحضرت ﷺ ان کو تبتل کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی خصی ہوجاتے ( بخاری ومسلم)
تشریح
تبتل کے معنی ہیں عورتوں سے انقطاع اور ترک نکاح، نصاری حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متبعین) کے ہاں تبتل ایک اچھا اور پسندیدہ فعل ہے کیونکہ ان کے نزدیک دینداری کی آخری حد یہ ہے کہ انسان عورتوں سے اجتناب کرے اور نکاح وغیرہ سے پرہیز کرے۔ لیکن جس طرح عیسائیت یا بعض دوسرے مذاہب میں نکاح کو ترک کردینا اور لذائذ زندگی سے کنارہ کش ہوجانا عبادت اور نیکی وتقوی کی آخری حد سمجھا جاتا ہے اس طرح کی کوئی بات اسلام میں نہیں ہے بلکہ شریعت اسلامیہ نے نکاح کو انسانی زندگی کے لئے ایک ضرورت قرار دے کر اس کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ لذائذ زندگی سے مکمل کنارہ کشی اور خود ساختہ تکالیف برداشت کرنا عبادت نہیں ہے بلکہ رہبانیت ہے جسے اس دین فطرت میں کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔ ہاں امام شافعی اتنا ضرور کہتے ہیں کہ بغیر نکاح زندگی گزارنا افضل ہے لیکن امام شافعی کا یہ قول بھی نکاح کے بارے میں شریعت اسلامیہ کے بنیادی منشاء کے منافی نہیں ہے کیونکہ اول تو اس کا تعلق صرف فضیلت سے ہے اور دوسرے یہ کہ یہ فضیلت بھی نفس نکاح یعنی کرنے یا نہ کرنے) کے بارے میں نہیں ہے بلکہ صرف تخلی للعبادۃ (یعنی عبادت کے لئے مجرد رہنا) کے نکتہ نظر سے ہے گویا امام شافعی کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ عبادات میں مشغول رہنا نکاح کی مشغولیت سے افضل ہے۔ چناچہ ملا علی قاری نے مرقات میں امام شافعی کی دلیلیں نقل کرنے کے بعد امام اعظم ابوحنیفہ کی بہت سی دلیلیں نقل کی ہیں جن سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ تجرد بغیر نکاح رہنے کے مقابلہ میں تاہل نکاح کرنا ہی افضل ہے۔ بہرکیف حضرت عثمان بن مظعون نے جب آنحضرت ﷺ سے تبتل کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے انہیں اس کی اجازت دینے سے انکار کردیا کیونکہ اسلام مسلمانوں کے ہاں نکاح کے ذریعہ افزائش نسل کو پسند کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ اللہ کے حقیقی نام لیوا موجود رہیں اور وہ ہمیشہ کفر و باطل کے خلاف جہاد کرتے رہیں۔ اسی سلسلہ میں حدیث کے راوی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے یہ کہا کہ اگر آنحضرت ﷺ حضرت عثمان کو تبتل کی اجازت دیدیتے تو ہم سب اپنے آپ کو خصی کر ڈالتے تاکہ ہمیں عورتوں کی ضرورت نہ پڑتی اور نہ ہمیں عورتوں سے متعلق کسی برائی میں مبتلا ہونے کا خوف رہتا۔ طیبی کہتے ہیں کہ اس موقع کے مناسب تو یہ تھا کہ حضرت سعد یہ کہتے کہ آنحضرت ﷺ حضرت عثمان کو تبتل کی اجازت دیدیتے تو ہم بھی تبتل کرتے۔ مگر حضرت سعد نے یہ کہنے کی بجائے یہ کہا کہ ہم سب اپنے آپ کو خصی کر ڈالتے لہذا حضرت سعد نے یہ بات دراصل بطور مبالغہ کہی یعنی اپنی اس بات سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر آنحضرت ﷺ حضرت عثمان کو اجازت دے دیتے تو ہم بھی تبتل میں اتنا مبالغہ اور اتنی سخت کوشش کرتے کہ آخر کار خصی کی مانند ہوجاتے۔ گویا اس جملہ سے حضرت سعد کی مراد حقیقۃً خصی ہوجانا نہیں تھا کیونکہ یہ فعل یعنی اپنے آپ کو خصی کر ڈالنا جائز نہیں ہے۔ اور علامہ نووی کہتے ہیں کہ حضرت سعد نے یہ بات اس وجہ سے کی کہ ان کا گمان یہ تھا کہ خصی ہوجانا جائز ہے حالانکہ انکا یہ گمان حقیقت و واقعہ کے خلاف تھا کیونکہ خصی ہوجانا انسان کے لئے حرام ہے خواہ چھوٹی عمر کا ہو یا بڑی عمر کا اس موقع پر جانوروں کے بارے میں جان لینا چاہئے کہ ہر اس جانور کو خصی کرنا حرام جو غیر ماکول یعنی کھایا نہ جاتا ہو اور جو جانور کھایا جاتا ہے اس کو خصی کرنا چھوٹی عمر میں تو جائز ہے لیکن بڑی عمر میں حرام ہے۔ جانوروں کو خصی کرنے کے بارے میں مذکورہ بالا تفصل علامہ نووی شافعی نے لکھی ہے جب کہ فقہ حنفی کی کتابوں اور مختار اور ہدایہ میں بڑی عمر اور چھوٹی عمر کی تفصیل کے بغیرصرف یہ لکھا ہے کہ جانوروں کو خصی کرنا جائز ہے۔
Top