Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (5792 - 5871)
Select Hadith
5792
5793
5794
5795
5796
5797
5798
5799
5800
5801
5802
5803
5804
5805
5806
5807
5808
5809
5810
5811
5812
5813
5814
5815
5816
5817
5818
5819
5820
5821
5822
5823
5824
5825
5826
5827
5828
5829
5830
5831
5832
5833
5834
5835
5836
5837
5838
5839
5840
5841
5842
5843
5844
5845
5846
5847
5848
5849
5850
5851
5852
5853
5854
5855
5856
5857
5858
5859
5860
5861
5862
5863
5864
5865
5866
5867
5868
5869
5870
5871
مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 6228
وعن أبي ذر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما أظلت الخضراء ولا أقلت الغبراء من ذي لهجة أصدق ولا أوفى من أبي ذر شبه عيسى بن مريم يعني في الزهد . فقال عمر بن الخطاب كالحاسد : يا رسول الله أفتعرف ذلك له ؟ قال : نعم فاعرفوه له . رواه الترمذي وقال : حديث حسن غريب
حضرت ابوذر کی فضیلت
حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کسی ایسے بولنے والے پر نہ تو نیلگوں آسمان نے سایہ کیا اور نہ زمین نے اس کو اٹھایا جو ابوذر ؓ زیادہ راست گو ہو اور اللہ اور اللہ کے رسول کا حق ابوذر ؓ زیادہ ادا کرنے والاہو۔ وہ ابوذر جو عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے مشابہ ہیں یعنی زہد میں۔ (ترمذی)
تشریح
اوفی کا ترجمہ بعض شارحین نے یہ کیا ہے کہ جو کلام و گفتگو کا حق ابوذر ؓ زیادہ ادا کرنے والا ہو اور کلام کا ایک حق تو یہ ہے کہ صحیح، سچی اور نیک بات کے علاوہ اور کچھ زبان پر نہ لایا جائے اور ایک حق یہ ہے کہ تلفظ کی ادائیگی، جملوں کی ساخت الفاظ کے استعمال اور مفہوم ومعنی کے اظہار میں کوئی فروگزاشت نہ ہو پس حدیث کا حصل یہ ہے کہ ابوذر اظہار حق میں ذرا بھی چشم پوشی ومداہنت نہیں کرتے ہمیشہ راست گفتاری وصاف گوئی سے کام لیتے ہیں جس بات کو حق اور سچ سمجھتے ہیں برملا کہہ دیتے ہیں چاہے وہ کیسی ہی تلخ ہو اور کسی کے لئے کتنی ہی ناگوار ہو نیز وہ اللہ اور اللہ کے رسول کے پکے مطیع و فرمانبردار ہیں، یا یہ کہ وعدہ اور عہد کو پورا کرتے ہیں اور یہ کہ اپنی بات کو بڑی وضاحت اور فصاحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں غرضیکہ آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کوئی شخص ابوذر کے برابر راست گو اور اپنی بات کا پورا، یا اللہ اور اللہ کے رسول کا حق ادا کرنے والا فصیح اللسان نہیں ہے۔ جو عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے مشابہ ہیں ان الفاظ میں حضرت ابوذر کے کمال زہد ودرع اور ان کے تجرد کی طرف اشارہ ہے چناچہ ان کے زہد اور دنیا سے ان کی بےتعلقی وبے رغبتی کا عالم یہ تھا کہ دنیا کی ناجائز ومباح لذتوں سے بھی اپنے آپ کو محروم رکھتے تھے، تجرد کی بےکیف زندگی پر پوری طرح قانع وصابر تھے مال جمع کرنا ان کے نزدیک حرام تھا، چاہے وہ کتنے ہی جائز ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو اور زکوٰۃ وغیرہ کتنی ہی پابندی و احتیاط سے ادا گئی ہو۔ منقول ہے کہ ایک دن حضرت ابوذر ہاتھ میں عصا لئے ہوئے سیدنا عثمان غنی کی مجلس میں آئے تو وہاں کعب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ سیدنا عثمان غنی نے حضرت کعب سے پوچھا، کعب (تمہیں معلوم ہی ہے) عبدالرحمن بن عوف اس حال میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں کہ ان کے پاس مال و دولت کی فروانی تھی۔ ان کا ترکہ نہایت کثیر مقدار سونے چاندی اور دوسرے مال و اسباب پر مشتمل ہے اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے (مال و دولت کی اس قدر کثرت وفراوانی عبدالرحمن کے درجہ کمال کی راہ میں کسی نقصان کا باعث تھی یا نہیں) حضرت کعب بولے اگر عبدالرحمن اس مال و دولت میں اللہ کا حق یعنی زکوٰۃ وغیرہ ادا کرتے تھے تو پھر اس مال و دولت میں ان کے لئے کوئی نقصان اور خدشہ کی کوئی بات نہیں، حضرت ابوذر نے حضرت کعب کی جو یہ بات سنی تو اپنا عصا اٹھا کر ان کو مارا اور بولے میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اگر میں پاس اس پہاڑ (یعنی احد پہاڑ) کے برابر سونا ہو اور میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کروں تو اس کے باوجود کہ میرا وہ خرچ کرنا قبول کرلیا جائے میں بالکل پسند نہیں کروں گا کہ میں اس میں سے چھ اوقیہ (دوسوچالیس درہم کے برابر) بھی سونا چھوڑ جاؤں، پھر حضرت ابوذر نے حضرت عثمان غنی کو مخاطب کرکے کہا کہ میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ بتاؤ تم نے بھی آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سنا ہے؟ ابوذر نے یہ بات تین مرتبہ کہی، حضرت عثمان غنی نے جواب دیا۔ ہاں آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے میں نے بھی یہ ارشاد سنا ہے۔ بہرحال حضرت ابوذر چونکہ کامل درویش اور تارک الدنیا تھے اور زہد وفقر پر سختی سے کار بند تھے اس لئے ان کا مسلک یہ تھا روپیہ پیسہ اور مال وزر جمع کرنا، بچا کر رکھنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جو کچھ دے سب اسی کی راہ میں خرچ کردینا چاہئے۔ اس سلسلہ میں ان کے مزاج میں اتنی شدت تھی کہ دولت کے جواز میں کوئی بات سننا پسند نہیں کرتے تھے چناچہ جب حضرت کعب نے حضرت عبدالرحمن کی دولت کے جواز میں بات کہی تو حضرت ابوذر پر ان کا یہی سخت جذبہ غالب آگیا اور انہوں نے حضرت کعب پر اپنا عصا کھینچ مارا۔ لیکن جہاں تک اصل مسئلہ کا تعلق ہے تو جمہور کا مسلک یہی ہے کہ اگر زکوٰۃ وغیرہ ادا کی جاتی رہے تو مال و دولت جمع کرنے اور بچا کر رکھنے میں کوئی گناہ نہیں ہے خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو رہی آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کی بات جو حضرت ابوذر نے بیان کیا تو اس سے مال و دولت کی برائی یا مال و دولت جمع کرنے کے عدم جواز کا کوئی پہلو نہیں نکلتا جیسا کہ شائد حضرت ابوذر سمجھتے تھے آنحضرت ﷺ نے تو محض اپنے جذبہ انفاق فی سبیل اللہ اور دنیاوی مال و دولت سے اپنی بےرغبتی کا اظہار فرمایا تھا نہ کہ اس دولت کے جمع کرنے اور رکھنے کے عمومی عدم جواز کا اظہار مقصود تھا جو جائز وسائل و ذرائع سے آتی ہو۔ اور جس کے حق (یعنی زکوٰۃ وغیرہ) کی ادائیگی کا اہتمام رکھا جاتاہو۔ یعنی زہد میں یہ الفاظ کسی روای کے ہیں، اصل روایت کا جزء نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ صاحب استیعاب نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں رسول کریم ﷺ کے یہ الفاظ بیان کئے گئے ہیں۔ جو شخص حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تواضع و انکسار کے دیکھنے کی خواہش وسعادت حاصل کرنا چاہتا ہو وہ ابوذر کو دیکھ لے اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حدیث بالا میں آنحضرت ﷺ نے ابوذر کی جس صفت میں حضرت عیسیٰ کے مشابہ فرمایا ہے وہ تواضع اور انکسار ہے۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ جس روای نے یعنی فی الزہد کے الفاظ میں مشاہبت کی توضیح کرنی چاہی ہے ان کے علم میں یہ حدیث نہیں تھی، جس کو صاحب استیعاب نے نقل کیا ہے اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ زہد اور تواضع کے درمیان کوئی منافات نہیں یہ دونوں صفتیں ایک ساتھ ہوسکتی ہیں بلکہ جو شخص زاہد ہوگا وہ متواضع ومنکسر المزاج بھی یقینا ہوگا۔ علاوہ ازیں یعنی فی الزہد کے الفاظ اصل کتاب یعنی مصابیح میں موجود نہیں ہیں بلکہ صاحب مشکوٰۃ کے بڑھائے ہوئے ہیں۔
Top