بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ يونس - تعارف
تعارف
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی سورتوں میں عام طور پر اسلام کے بنیادی عقائد، توحید و رسالت، قیامت اور آخرت کا ذکر فرما کر جزا و سزا پر زور دیا گیا ہے۔ جب نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلا نبوت فرما کر مکہ کے کفار و مشرکین کے سامنے اللہ کا کلام پیش کیا تو ابتداء میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز پر کوئی توجہ دی گئی۔ لیکن جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مقناطیسی شخصیت اور دین اسلام کی عظمت وتعلیمات سے ایک خاص طبقہ متاثر ہوتا ہوا نظر آیا تو کفار و مشرکین نے استہزا و مذاق اور طرح طرح کی اذیتوں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانثار صحابہ کو ستانا شروع کردیا۔ اعتراضات اور شبہات کی بھرمار کردی یہاں تک کہ اسلام کی سادہ اور پر تاثیر سچائیوں کو جادو کا نام دے کر اس تحریک کو بدنام کرنے کی مہم تیز کردی۔ جس کے قدم بھی اس سچائی کی طرف بڑھتے ان پر مکہ کی سر زمین کو تنگ کرنا شروع کردیتے۔ یہاں تک کہ بعض صحابہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ قیام مکہ کے اس آخری دور میں سورة یونس کو نازل کیا گیا۔ اس سورت میں نہ صرف کفار و مشرکین کے اعتراضات و شبہات کا بھرپور انداز میں جواب دیا گیا ہے بلکہ حضرت نوح، حضرت موسیٰ اور حضرت یونس کے واقعات کو سنا کر صاف صاف اعلان کردیا گیا ہے کہ اللہ نے ہر دور میں انسانوں ہی میں سے پاکیزہ نفس انسانوں کو اپنا پیغام دے کر بھیجا ہے تاکہ وہ بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہ راست پے لے آئیں اور اسلام کی تعلیمات سے دنیا کے اندھیروں کو دور کردیں۔ چناچہ انبیاء کرام نے تمام تر بےسرو سامانی اور غربت و افلاس کے باوجود اللہ کا دین پہنچانے میں دن رات ایک کردیئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے دین اسلام کے دشمنوں کو تہس نہس کردیا اور انبیاء کرام اور ان کے ماننے والوں کو کامیاب و بامراد فرمایا۔ حضرت موسیٰ ٰجو انتہائی بےبسی کے عالم میں پوری قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دلا کر مصر سے فلسطین کی طرف ہجرت فرما رہے تھے اس وقت اللہ نے فرعون کو، اس کی سلطنت کے فخر و غرور کو اور اس کی طاقت و قوت کو سمندر میں غرق کردیا اور قوم بنی اسرائیل کو سلطنت اور ارض فلسطین پر حکمرانی عطا کردی۔ فرعونی قوتیں تباہ و برباد ہوگئیں اور بےبس اور مظلوم بنی اسرائیل کو تمام تر عزت و عظمت سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ کے خلاف مخالفت اور دشمنی شدت اختیار کرچکی تھی اس وقت قیام مکہ کے آخری دور میں یہ سورت نازل ہوئی۔ اسلامی عقائد، اصول دین، توحید و رسالت، قیامت، آخرت، حساب و کتاب جزا و سزا کا اس سورت میں خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ سورة یونس میں حضرت نوح کا مختصر اور حضرت موسیٰ کا تفصیل سے واقعہ اور حضرت یونس کا واقعہ خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔ نواز دیا گیا ۔ دوسری طرف حضرت نوح کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے ساڑھے نو سو سال تک ہدایت و رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیا لیکن جب قوم نے نا فرمانیوں کی حد کردی تب اللہ نے حضرت نوح اور ان کے ماننے والوں کو نجات عطا فرما دیا ور بقیہ تمام لوگوں اور ان کی تہذیب و تمدن، مال و دولت اور ان کے فخر و غرور کے نشانات کو پانی کے طوفان میں غرق کردیا۔ ان دو واقعات کے بعد حضرت یونس کا قصہ سنا کر فرمایا کہ قوم موسیٰ و قوم نوح کے برخلاف جب قوم یونس کو اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ حضرت یونس چلے گئے ہیں اور اب اللہ کا عذاب آنے والا ہے۔ تو پوری قوم نے سچے دل سے توبہ کرلی اور حضرت یونس کی رسالت کو تسلیم کرلیا تب اللہ نے ان پر سے عذاب کو ٹال دیا۔ کفار مکہ کو بتایا جا رہا ہے کہ دونوں راستے سامنے ہیں اگر تم نے حضرت موسیٰ اور حضرت نوح کی نافرمان قوم کا طریقہ اختیار کیا تو تمہیں تباہی و بربادی سے کوئی نہیں بچا سکتا اور اگر حضر یونس کی قوم کا طریقہ اختیار کر کے کفر و شرک سے توبہ کرلی اور نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن سے وابستگی اختیار کرلی تو نجات مل جائے گی۔
Top