تعارف
تعارف : اگر اللہ کی رضا و خوشنودی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کے لیے جائز حدود میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور مال و دولت کمانے کی جدوجہد خواہش اور کوشش کی جائے تو شریعت میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے شرط یہ ہے کہ قدم قدم پر یہ احساس زندہ رہے کہ قیامت کے دن ہر ایک نعمت کے متعلق جو سوال کیا جائے گا اس کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا ہے۔
دراصل شریعت میں ” تکاثر “ کی اجازت نہیں ہے یعنی ایک دوسرے سے کثرت اور بہت کچھ حاصل کرنے میں زندگی لگا دینا۔ اگر ایک شخص اللہ، اس کے رسول، قیامت ، آخرت، اخلاقی حدود اور اس کی ذمہ داریوں سے غافل ہوکر معیار زندگی بلند کرنے کی دھن میں پوری زندگی کھپادے اور وہ اس بات کو بھلادے کہ اسے ایک دن اللہ کے سامنے حاضر ہوکر دی گئی ہر نعمت کا جواب دینا ہے تو یہ نامناسب بات ہوگی۔ اگر انسان اپنے چاروں طرف نظر دوڑائے تو اس پر اللہ کے اتنے کرم ہیں اور اس کو زندگی گزارنے کے لیے اتنی نعمتیں عطا کی گئی ہیں کہ ان کو شمار کرنا چاہے تو شمار نہیں کرسکتا۔ نعمت کی قدر تو یہ ہے کہ ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس اور ایک کھجور پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے چناچنہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت پاک سے یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ آپ نے صحابہ کرام (رض) کی تربیت کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی نعمتوں پر بھی شکر ادا کرنے کی تلقین وتعلیم فرمائی ہے۔
حضرت جابر ابن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے گھر تشریف لائے۔ ہم نے آپ کو تازہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی پیش کیا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں (قیامت کے دن) سوال کیا جائے گا۔ (مسند احمد، نسائی، ابن جریر)
ایک مرتبہ سخت دھوپ میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ حضرت عمر فاروق (رض) کو خبر ہوئی تو وہ بھی گھر سے تشریف لے آئے۔ انہوں نے حضرت صدیق اکبر (رض) سے پوچھا کہ اس وقت سخت دھوپ میں کیسے آنا ہوا۔ فرمایا بھوک کی شدت نے مجبور کردیا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم اسی بےچینی نے مجھے بھی مجبور کیا۔ یہ دونوں باتیں کررہے تھے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تشریف لے آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا تم اس وقت یہاں ؟ عرض کیا حضور بھوک کی شدت نے مجبور کردیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں بھی اسی وجہ سے آیا ہوں۔ اس کے بعد حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں کو لے کر حضرت ابوایوب انصاری (رض) کے مکان پر تشریف لے آئے۔ حضرت انصاری کی اہلیہ حضور کے آنے سے بہت خوش ہوئیں۔ کچھ دیر بعد حضرت ابو ایوب بھی تشریف لے آئے انہوں نے جلدی سے کھجور کا ایک خوشہ توڑا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپ نے فرمایا کہ پورا خوشہ کیوں توڑ لائے ؟ اس میں کچی پکی ہر طرح کی کھجوریں ہیں۔ عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس لیے لے آیا تاکہ آپ جس قسم کی کھجور کھانا پسند فرمائیں وہ کھالیں۔ اتنی دیر میں حضرت ابو ایوب انصاری (رض) نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا کچھ حصہ آگ پر بھونا کچھ ہانڈی میں ڈال کر پکایا۔ ان سب نے گوشت روٹی کھائی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کی یہ نعمتیں ہیں جن سے قیامت کے دن سوال کے اجائے گا حضرات صحابہ کرام (رض) یہ سن کر حیران رہ گئے کہ اس فقر و فاقہ اور سخت بھوک میں کھائی گئی ان چیزوں کے متعلق بھی اللہ کے ہاں سوال کیا جائے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک یہ اللہ کی نعمتیں ہیں ان پر شکر ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ کرکے شروع کرو اور جب ختم کرو تو اس پر اللہ کا شکرا دا کرو۔ اس کے بعد آپ نے ذرا ساگوشت ایک روٹی میں رکھ کر فرمایا کہ ابو ایوب یہ فاطمہ (رض) کو دے آئو اس نے بھی کئی دن سے کوئی چیز نہیں کھائی۔ وہ جلدی سے گئے اور حضرت فاطمہ کو دے آئے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تکاثر سے محفوظ رکھتے ہوئے اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین