تعارف
سورة نمبر ١٣
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سورۃ الرعد
سورة نمبر 13، رکوع 6، آیات 43، الفاظ و کلمات 863 ، حروف 3614، مقام نزول مکہ مکرمہ
سورۃ الرعد قیام مکہ کے اس آخری دور میں نازل ہوئی جب کفار و مشرکین مکہ نے اہل ایمان کا اس سر زمین پر رہنا دشوار کردیا تھا اور اپنے ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی۔ فرمایا جا رہا ہے کہ اے اہل ایمان ! تم ان کفار کی پروانہ نہ کرو اور حق وصداقت کی شمع کو روشن کرتے چلے جاؤ۔ اس کائنات کو جس اللہ نے پیدا کیا ہے وہی اس کا خالق، مالک اور رزاق ہے وہ زبردست قوت طاقت کا مالک ہے اسی نے زمین و آسمان، چاند ، سورج، ستارے، پہاڑ، درخت، بادل بجلی کی گھن گھرج اور بہتے دریاؤں کو پیدا کیا ہے وہ اپنے ہر حکم کو عملی شکل دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے وہ کسی قوم کو عذاب دینا چاہے تو اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔ وہ کسی کو دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا کرنا چاہے تو کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتا اسی اللہ نے اپنے محبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنا کلام نازل کیا ہے جو سراسر نور اور حق و صداقت کی شمع ہے۔ اسی میں سارے انسانوں کے لئے اطمینان قلب کی دولت موجزن ہے۔ اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ باطل کی قوت و طاقت سے نہ ڈریں نہ دبیں کیونکہ بظاہر باطل ایک قوت نظر آتا ہے درحقیقت اس کی حیثیت اس کوڑے کباڑ سے زیادہ نہیں ہے جو بارش کے پانی سے بہنے والے ندی نالوں کے اوپر نظر آتا ہے یا سونا چاندی تپانے کے وقت جو جھاگ سونے پر آجاتا ہے۔ فرمایا کہ کوڑے کباڑ کے نیچے بہتا رواں دواں صاف شفاف پانی اور سونے چاندی کی قیمت اور حیثیت ہوتی ہے جھاگ اور کوڑے کباڑ کو پھینک دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو نصیحت فرمائی ہے کہ وہ ان کفار کی باتوں کی پرواہ نہ کریں۔ کفار کبھی تو کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا بھی ہے پیتا بھی ہے اور بیوی بچے رکھتا ہے۔ اسی طرح وہ بہت سی باتوں کا مذاق اڑاتے ہیں فرمایا کہ کوئی شخص ان بےعقل اور نا سمجھوں سے پوچھے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے رسول اور نبی آئے ہیں کیا ان کے بیوی بچے اور بشری تقاضے نہیں تھے۔ اہل ایمان سے فرمایا کہ کفار و مشرکین مذاق اڑانے سے اور تمہیں جڑ و بنیاد سے اکھڑانے سے باز نہیں آئیں گے۔ تم اس اللہ پر مکمل یقین رکھو جو اس کائنات کا مالک ہے اور اسی نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس قرآن کریم کو نازل کیا ہے جو سرا سر ہدایت اور روشنی ہے جس پر عمل کرنے سے ہی زندگی کے اندھیرے دور ہو سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے کفار کو بھی بتایا ہے کہ یہ دنیا دار العمل ہے عمل کرنے کا بہترین موقع ہے یہ وقت نکل گیا تو پھر عمل کرنے کا موقع نصیب نہ ہوگا ۔ دنیا اور آخرت کی کامیابی اسی میں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر آخرت کی کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کرلی جائیں ورنہ دنیا اور آخرت دونوں برباد ہو کر رہ جائیں گے۔
٭… یہ سورت قیام مکہ مکرمہ کے اس آخری دور میں نازل کی گئی ہے جب کفار کے ظلم و ستم کی انتہا ہوچکی تھی۔
٭… دوسرے رکوع میں لفظ الرعد (بادل کی گرج چمک) آیا ہے۔ اسی سے علامت کے طو پر اس سورت کا نام رکھا گیا ہے۔
٭… اس سورة میں اسلام کے بنیادی عقائد توحید، رسالت، وحی، آخرت جزا و سزا جنت و جہنم کا ذکر کیا گیا ہے۔
٭… جگہ جگہ کفار و مشرکین کے اعتراضات کے جوابات دیئے گئے ہیں۔
٭… اس سورة میں بتایا گیا ہے کہ انسان دن کے اجالے میں یا رات کی تاریکی میں کھل کر یا چھپ کر کوئی کام کرتا ہے تو اس کی اطلاع اور علم اللہ کو ہے۔ وہ ایسی ذات ہے جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔