تعارف
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سورۃ النحل
سورة نمبر 16
رکوع 6
آیات 128
الفاظ و کلمات 1871
حروف 7974
مقام نزول مکہ مکرمہ
اس سورة میں ایک جگہ النحل کا لفظ آیا ہے جس کے معنی شہد کی مکھی کے ہیں اسی مناسبت سے اس سورة کا نام سورة النحل رکھا گیا ہے۔
مکہ مکرمہ میں خاص طور پر ایسی آیتیں نازل کی گئی ہیں جن میں اس بات کو واضح طریقہ پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ اپنا پیغام پہنچایا اور بتایا کہ وہ اس پر چلیں اور اللہ کے رسولوں اور نبیوں کی مکمل اطاعت کریں ورنہ اللہ کا وہ فیصلہ آجائے گا جس کے سامنے پوری کائنات کی قوتیں بےبس ہو کر رہ جاتی ہیں اور مال و دولت اونچی اونچی عمارتیں اور تہذیب و تمدن کی ترقی کام نہیں آتی۔ چناچہ جن لوگوں نے انبیاء کرام کی تعلیمات کو اپنا کر کفر و شرک سے توبہ کرلی ان کی نجات ہوگئی اور جنہوں نے انکار کیا اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی قائم رہے اللہ نے ان کو عذاب سے دوچار کردیا۔
جب اللہ نے اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیغام حق دے کر بھیجا اور ان کو گزشتہ قوموں کے ہولناک انجام سے آگاہ کیا تو انہوں نے اس مہلت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے جو ان کو دی گئی تھی کہنے لگے کہ اے محمد ہم یہ سن سن کر تنگ آگئے ہیں کہ ہم پر کوئی عذاب نازل ہو سکتا ہے اگر ایسا ہے تو ہم کھلے عام آپ کی تعلیمات کا انکار کرتے ہیں وہ عذاب جس کی تم باتیں کرتے ہو وہ لے آؤ آخر اس کے آنے میں دیر کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان نادانوں سے یہی کہا ہے کہ اگر وہ اس وقت کو غنیمت جانتے اور قدر کرتے اور مہلت عمل سے فائدہ اٹھاتے تو ان کے حق میں بہتر تھا۔ ان کو اس فیصلے کی جلدی مچانے کی ضرورت ہی نہیں ہے جو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کے حق میں فیصلہ ہوچکا ہے۔ فرمایا کہ اگر وہ دنیا کی معمولی معمولی چیزوں پر غور کرتے تو اللہ کی ذات کا انکار کبھی نہ کرتے۔ فرمایا کہ انسان اپنے
وجود پر ہی غور کرلے کہ ایک معملوی سے ناپاک قطرے سے اس کے وجود کو بنایا گیا ہے لیکن اس نطفہ کی ناپاکی کا اس کے جسم و جان پر کوئی اثر نہیں ہے۔ گوبر اور خون کے درمیان سے اللہ تعالیٰ ایسا دودھ پیدا کرتا ہے جس میں نہ تو خون کی رنگت ہوتی ہے اور نہ گوبر کی بدبو۔ اسی طرح ایک زہریلی شہد کی مکھی کے پیٹ میں ایک ایسا مادہ پیدا کیا جاتا ہے جس میں زہر کی کوئی آمیزش نہیں ہے بلکہ شہد میں سراسر شفا ہی شفا رکھی گئی ہے اگر انسان اس پر ہی غور کرلے کہ ان تمام چیزوں کا اور زمین و آسمان کے ذرے ذرے کا نظام کون چلا رہا ہے تو انسان پھر خیر کی جلدی کرے گا شر کے لئے نہیں۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو سات باتوں کا خاص طور پر حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ ہمیشہ عدل و انصاف، احسان و کرم، صلہ رحمی اور حسن معاملہ اختیار کریں اور ہر بےحیائی، بےغیرتی، برائی اور ضد اور ہٹ دھرمی سے دور رہیں ہر وعدہ کو پورا کریں۔ حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھیں اور صبر و استقامت سے ثابت قدم رہیں۔ اللہ قدم قدم پر ان کی امداد و اعانت فرمائے گا۔
* یہ سورة بھی مکہ مکرمہ کے آخری دور میں نازل کی گئی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسانی وجود ، شہد کی مکھی، خون اور گوبر کے درمیان سے دودھ جیسی شفا بخش غذا پیدا کی ہے جو اس کی قدرت کا شاہکار ہے۔
* اس سورة میں سات باتوں کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے عدل و انصاف، دوسروں سے نیکی اور بھلائی، رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور حسن سلوک ہر طرح کی بےحیائیوں، برائیوں اور سرکشی سے بچنا۔ ہر وعدہ کو پورا کرنا۔ اسی میں مومن کی کامیابی ہے۔