بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ مريم - تعارف
تعارف
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورة مریم سورة نمبر 19 آیات 98 رکوع 6 الفاظ وکلمات 762 حروف 3986 مقام نزول مکہ مکرمہ اس سورة میں دس انبیاء کرام کے نام اور چند انبیاء کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ادریس، حضرت ابراہیم، خلیل اللہ، حضرت اسماعیل، ذبیح اللہ، حضرت اسرائیل (یعقوب) ، حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون، حضرت زکریا، حضرت عیسیٰ یہ سورة مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل کی گئی جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جا نثار صحابہ کرام کو اتنا زیادہ ستایا گیا اور تکلیفیں پہنچائی گئیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ وہ ملک حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ چناچہ صحابہ کرام کی بڑی تعداد مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئی اور حبشہ کی طرف ہجرت کرگئی۔ حضرت زکریا علیہ اسللام بنی اسرائیل کے عظیم پیغمبر اور بیت المقدس کے متولی (نگران) تھے۔ جب ان کی نسبتی بہن کے گھر حضرت مریم پیدا ہوئیں تو حضرت مریم کی والدہ کی منت کی وجہ سے حضرت زکریا حضرت مریم کے نگران بنائے گئے۔ سورة مریم مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب کفار و مشرکین مکہ کا ظلم و ستم اس قدر بڑھ چکا تھا کہ صبر و تحمل کے پیکر اعظم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنے جاں نثاروں پر اس ظلم و زیادتی کو برداشت نہ کرسکے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ کرام سے فرمایا کہ : ” تم مکہ مکرمہ سے نکل کر ملکہ حبشہ کی طرف چلے جاؤ۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کی موجودگی میں کسی پر ظلم نہیں ہو سکتا۔ تمہارے لئے بھلائی کی زمین ہے جب تک اللہ تعالیٰ تمہاری اس مصیبت کو دور کرنے کی کوئی سبیل پیدا نہ کردیں اس وقت تک تم وہیں ٹھہرنا۔ “ چنانچہ ارشاد نبوی کے مطابق رجب ٥ ھ نبوی میں سب سے پہلے گیارہ (١١) مسلمان مردوں اور چار (٤) خواتین نے بیت اللہ کی سر زمین کو چھوڑ کر قریبی ملک حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ زیادہ عرصہ نہ گذارا تھا کہ کچھ اور صحابہ کرام و صحابیات نے مکہ سے ملک حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی اس طرح چند مہینوں میں تراسی (٨٣) مرد اور گیارہ (١١) خواتین جن میں سات (٧) غیر قریشی مسلمان بھی تھے حبشہ کی سر زمین پر جمع ہوگئے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس صرف چالیس صحابہ کرام رہ گئے۔ چونکہ مکہ مکرمہ کے تمام قبیلوں میں سے کسی نہ کسی قبیلے کے ایک یا دو افراد اس ہجرت میں شامل تھے اس سے تمام قبیلوں میں ایک کہرام مچ گیا وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف سینکڑوں لوگ مکہ چھوڑ جائیں گے بلکہ وہ مسلمان حبشہ میں ایک قوت بن جائیں گے اور قریش کے رعب اور دبدبہ کو سخت نقصان پہنچے گا۔ نیز مکہ والے یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ساری دنیا میں ان کی ہوا اکھڑ جائے گی۔ کفار مکہ اس توہین کو برداشت نہ کرسکے اور چند نہایت سمجھدار افراد پر مشتمل ایک وفد ترتیب دے کر ملک حبشہ میں شاہ نجاشی کے پاس بھیجا گیا اور بادشاہ کے لئے کچھ تحفے ساتھ کردیئے گئے۔ اس وفد کے ارکان نے بحشہ کے بادشاہ نجاشی سے یہ کہا کہ ہمارے کچھ غلام بھاگ کر آپ کے ملک میں آگئے ہیں براہ کرم ان کو واپس بھیج دیجیے۔ نجاشی بادشاہ نے کہا کہ جب تک میں ان لوگوں سے نہ مل لوں اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ چناچہ نجاشی نے مکہ سے آنے والوں کو بلا بھیجا۔ تمام صحابہ کرام بادشاہ کے پاس پہنچ گئے۔ بادشاہ کے پوچھنے پر حضرت جعفر طیار آگے بڑھے اور انہوں نے کہا کہ اے نجاشی ! ہم گراہ تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ ہم راہ ہدایت نصیب ہوئی۔ اس ہدایت پر چلنے کی وجہ سے مکہ کی سر زمین میں ہم پر اتنے ظلم و ستم کئے گئے کہ ہم اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ اس موثر تقریر کے بعد حضرت جعفر طیار نے سورة مریم کی تلاوت بھی فرمائی۔ آیات کی تلاوت سن کر نجاشی بادشاہ اس قدر رویا کہ آنسوؤں سے اس کی داڑھی تر ہوگئی۔ تلاوت کے بعد نجاشی نے کہا یقینا یہ کلام اور جو کچھ حضرت عیسیٰ لے کر آئے تھے وہ ایک ہی سرچشمے سے نکلے ہیں۔ نجاشی نے کفار مکہ کے وفد سے کہا کہ اللہ کی قسم میں ان لوگوں کو تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔ یہ کہہ کر اس نے مکہ والوں کے تحفے بھی واپس کردیئے۔ خلاف توقع مکہ کے لوگوں کو اس قدر ناکامی اور ذلت نصیب ہوئی کہ وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کی سر توڑی کوششوں کے باوجود مسلمانوں کو حبشہ میں عزت و سربلندی سے نوازا۔ بادشاہ نے تمام مسلمانوں کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دے دی۔ یہ وہ حالات تھے جن میں سورة مریم نازل کی گئی اور اللہ کے کلام کی حقانیت ثابت ہو کر رہی۔ اس سورة کا نام سورة مریم ہے۔ مریم کے معنی کنواری اور پاکیزہ کے آتے ہیں۔ اس سورت میں حضرت مریم کی شان اور عظمت کو بھی بیان فرمایا گیا ہے اور کچھ پیغمبروں کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے۔ اس سورة کی ابتداء حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ کے ذکر سے فرمائی گئی ہے۔ حضرت زکریا بنی اسرائیل کے بڑے جلیل القدر اور عظیم پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر ہیں۔ آپ اس زمانہ میں بنی اسرائیل کے پیشوا، رہنما اور بیت المقدس کے متولی بھی تھے۔ حضرت زکریا اپنے ہاتھ سے روزی کماتے تھے اور بڑھئی کے کاموں سے جو کچھ ملتا اس پر گزارہ کرتے تھے۔ جب ان کی عمر مبارک ١٢٠ سال کی ہوگئی تو ان کی نسبتی بہن کے گھر حضرت مریم پیدا ہوئیں۔ حضرت مریم کی والدہ نے ان کی پیدائش سے پہلے یہ منت مان لی تھی کہ جو بھی اولاد پیدا ہوگی اسے میں بیت المقدس کے لئے وقف کر دوں گی۔ حضرت مریم کی پیدائش کے بعد منت کے مطابق ان کو بیت المقدس کے متولی حضرت زکریا جو حضرت مریم کے سگے خالو تھے ان کے حوالے کردی گئیں۔ جب وہ جوان ہوئیں تو ان کیلئے بیت المقدس میں ایک حجرے کا انتظام کردیا گیا جس میں وہ عبادت کرتی تھیں۔ حضرت مریم نہایت پاکیزہ صفت اور عبادت گذار خاتون تھیں۔ ایک دن حضرت زکریا ان کے حجرے میں گئے تو ان کے سامنے بےموسم کے پھل دیکھے۔ ان سے پوچھا کہ یہ پھل کہاں سے آئے ہیں ؟ انہوں نے نہایت معصومیت کے ساتھ جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم۔ یہ میرے اللہ کی طرف سے آئے ہیں۔ حضرت زکریا سوچنے لگے کہ جب اس جگہ جہاں کسی کے آنے کے امکانات نہیں ہے بےموسم کے پھل آسکتے ہیں تو میری زندگی کا اگرچہ موسم نکل گیا ہے کہ میرے گھر اولاد ہو مگر اللہ کی قدرت سے یہ بعید نہیں ہے۔ اس جگہ حضرت زکریا نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی۔ الٰہی ! میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ میری ہڈیاں تک سوکھ گئی ہیں۔ سر میں بالوں کی سفیدی پھیل گئی ہے۔ میری بیوی بانجھ ہے۔ اے رب ! آپ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے کبھی مایوس اور محروم نہیں کیا۔ میرے رشتہ داروں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اس دین کا وارث بن سکے جو آپ نے مجھے عطا فرمایا ہے۔ آپ مجھے اپنی رحمت خاص سے ایک ایسا بیٹا عطا فرما دیجیے جو میرا اور آل یعقوب کی دینی عظمتوں کا وارث ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا اور حضرت یحییٰ جیسا بیٹا عطا فرمایا۔ اللہ نے بتا دیا کہ وہ اللہ تمام قدرتوں کا مالک ہے وہ اسباب کا محتاج نہیں ہے وہ جب اور جس طرح چاہے اپنی قدرت کا اظہار فرما دیتا ہے۔ سورة مریم کی آیات اور حضرت زکریا کے اس واقعہ سے اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے کہ جس اللہ پر تم ایمان لائے ہو وہ اتنی قدرت و طاقت والا ہے کہ ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے اور اسباب کا محتاج نہیں ہے۔ لہٰذا مستقبل اہل ایمان کا ہے۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کی قدرت و طاقت پر بھروسہ رکھا جائے اور عمل صالح اختیار کیا جائے۔ اسی میں سب سے بڑی کامیابی ہے۔
Top