تعارف
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سورة نمبر 21
کل رکوع 7
آیات 112
الفاظ وکلمات 1187
حروف 5154
مکہ مکرمہ کے دور متوسط میں سورة الانبیاء نازل کی گئی۔ چونکہ اس سورة میں سترہ انبیاء کرام کا ذکر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کا نام ” الانبیاء “ رکھا ہے۔
بد عملی اور کفر و شرک میں مبتلا لوگوں کو ایک دفعہ پھر جھنجھوڑا گیا ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے۔ حساب کتاب کی گھڑی سر پر کھڑی ہے لیکن یہ لوگ اپنی غفلت اور جہالت کی روش کو بدلنے کے لئے تیار نہیں ہیں حالانکہ وہ وقت بہت دور نہیں ہے جب ان کے سامنے ان کی زندگی بھر کے اعمال پیش کئے جائیں گے۔ جس کا وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ غفلت کا اندازہ اختیار کر کے جس طرح وہ لاپرواہی برت رہے ہیں اور ٹہلانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کو بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے جواب دینے سے بچ نہ سکیں گے۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملا کر فرمایا کہ اس طرح میرا آنا اور قیامت کا آنا ملا ہوا ہے یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اس بات کی علامت ہے کہ انسانی تاریخ اب اپنے آخری دور میں داخل ہوچکی ہے۔
اس سورة میں کفار و مشرکین کی اس غلط فہمی کو بڑی شدت سے دور کیا گیا ہے کہ ایک بشر نبی کیسے ہو سکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جتنے بھی انبیاء کرام تشریف لائے ہیں وہ سب کے سب بشر ہی تھے کوئی اور مخلوق نہ تھے۔ انبیاء کرام کی بشریت سے انکار کو جہالت اور نادانی قرار دیا گیا ہے۔
بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا اور سب سے آخر میں حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا آخری نبی اور آخری رسول بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ ارشاد ہے کہ وہ ہزاروں انبیاء جو دنیا میں تشریف لائے ہیں ان سب کا دین ایک ہی تھا۔ اسی دین کی تکمیل حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کی گئی ہے۔ اب آپ کے بعد نہ کسی نئے نبی اور رسول کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی کتاب ہدایت کی۔ جو لوگ اس سچائی کو تسلیم کریں گے دنیا اور آخرت کی کامیابی ان ہی لوگوں کا نصیب ہوگی۔ جو منہ
سورۃ الانبیاء میں سترہ انبیاء کرام کا ذکر مبارک ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا نام سورة الانبیاء رکھا۔ مکی سورتوں کی طرح اس سورة میں بھی توحید و رسالت، شان نبوت، اللہ کا ذکر اور فکر آخرت کی تعلیم دی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دین کو لے کر تشریف لائے ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے انبیاء کرام لے کر تشریف لائے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس تعلیم کو پھیلا رہے ہیں جو انبیاء کرام کا مقصد اور مشن تھا۔ فرمایا گیا کہ اگر کفار مکہ ایمان نہ لائے تو ان کا حشر بھی ان لوگوں سے مختلف نہ ہوگا۔ جو نافرمانیاں کر کے اپنی آخرت کو برباد کر بیٹھے تھے۔ سنبھلنے اور سمجھنے کا یہ بہترین موقع ہے۔
پھیریں گے ان کو دنیا اور آخرت میں سوائے حسرتوں کے اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ۔
فرمایا کہ انسان کی زندگی کا جو بھی لمحہ گذر رہا ہے وہ اس کو موت سے اتنا ہی قریب کر رہا ہے۔ ہر انسان کو اور ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہی ہے۔ یہ وہ دروازہ ہے جس سے ہر انسان کو یہاں تک کہ تمام انبیاء کرام کو بھی گزرنا ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ سب کو موت آئے گی اور اسے موت نہ آئے گی۔ فرمایا کہ ہر انسان کو اپنی آخرت کی فکر کرنا چاہئے۔ اگر اس سلسلہ میں غفلت اور لاپرواہی کا طریقہ اختیار کیا گیا تو یہ زندگی کے لمحے اس کے لئے حسرتوں اور ناکامیوں کا سبب بن جائیں گے۔
فرمایا کہ جتنے بھی انبیاء کرام تشریف لائے سب سے پہلے ان کی تعلیمات کو جھٹلایا گیا، ان کو ہر طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ ان کا مذاق اڑایا گیا اگر اللہ چاہتا تو ان پر اپنا عذاب بھیج سکتا تھا مگر اس کے ہر فیصلے پر اس کی صفت رحم اور صفت حلم و برداشت غالب ہے۔ وہ اپنے فیصلوں میں جلدی نہیں کرتا لیکن جب وہ کسی قوم کی مسلسل نافرمانیوں کی وجہ سے تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے تو پھر کسی کا اقتدار، فوج، دولت، بلند عمارتیں اور شان و شوکت اس کا راستہ نہیں روک سکتے۔
اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین کے ان تمام اعتراضات کا جواب بھی دیا ہے جو وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیا کرتے تھے۔ فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساری انسانیت کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں جو لوگ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کریں گے وہی کامیاب و بامراد ہوں گے لیکن جنہوں نے ان کے راستے کو چھوڑ دیا وہ کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔ اللہ نے اپنا آخری نبی بھیج دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس بات کی سختی سے تردید فرمائی ہے کہ اللہ نے کسی کو اپنا بیٹا بنا اپنی ہے۔ فرمایا کہ اللہ ان رشتے اور تعلقات سے بلندو برتر ہے۔ اس کی طاقت وق درت ایسی ہے کہ جب کسی چیز کو وجود عطا کرنا چاہتا ہے تو وہ اسباب اور ذرائع کا محتاج نہیں ہوتا۔ وہ کن (ہوجا) کہتا ہے اور وہ چیز موجود ہوجاتی ہے اسے اپنا بیٹا بیٹی یا بیوی بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہ محتاجی انسانوں کو ہوتی ہے اللہ اس طرح کی ہر احتیاج ، محتاجی اور ضرورت سے بلندو برتر اور بےعیب ذات ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں لیکن کائنات میں ہر چیز اس کی محتاج ہے۔