تعارف
سورة نمبر 22
کل رکوع 10
آیات 78
الفاظ و کلمات 1283
حروف 5432
سورۃ الحج کی ابتدائی آیات مکہ مکرمہ میں اور کچھ آیات مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں چونکہ مدینہ منورہ میں نازل ہونے والی آیات حاص طور پر کفار کے خلاف جہاد کی اجازت وغیرہ کے لیے ہیں اس لیے اس سورة کو مدنی سورة شمار کیا گیا ہے۔
تعارف سورة الحج
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ الصلوۃ والسلام) نے تعمیر بیت اللہ کے وقت تمام دنیا کے انسانوں کو حج کے لیے اذن عام دیا تھا۔ باہر سے زیارت کے لیے آنے والوں اور مکہ کے رہنے والوں کو حقوق میں برابر قرار دیا تھا۔ باہر سے زیارت کے لیے آنے والوں اور مکہ کے رہنے والوں کو حقوق میں برابر قرار دیا تھا۔ لیکن ان کفار نے اس مقدس و محترم سرزمین کو اپنی ذاتی جاگیر بنا لیا تھا۔
اللہ کا وہ گھر جو اس کی عبادت و بندگی کے لیے بنا یا گیا تھا اس میں تین سو ساٹھ بن رکھ کر غیر اللہ کی عبادت و بندگی کی جارہی تھی اور جس طرح تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اپنی ہر حاجت کو اللہ کے سامنے پیش کر کے اس سے مدد مانگی تھی یہ لوگ ابراہیمی ہونے کے دعویدارہونے کے باوجود غیر اللہ سے اپنی حاجتیں مانگا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ کفار کے غلبہ اور قوت و طاقت سے نہ گھبرائیں وہ وقت دور نہیں جب ان کفار کو کمر ٹوٹ جائے گی اور اللہ کا گھر قیامت تک صرف اسی کی عبادت و بندگی کے لیے مخصوص ہوجائے گا اور جہاد کے ذریعہ اہل ایمان کو ان کفار پر غلبہ حاصل ہوجائے گا۔ فتح و نصرت ان کے قدم چومے گی اور آج جو لوگ اہل ایمان کے راستے کا پتھر بن گئے ہیں وہ سخت ناکام ہوں گے اور ان کی اجارہ داری ٹوٹ کر رہ جائے گی۔
مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک جس طرح اہل ایمان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ ان کو اس زمانہ میں اور مدینہ منورہ کے ابتدائی دو سالوں میں اس بات کا حکم تھا کہ وہ ہر طرح کے مظالم برداشت کرتے رہیں اور طاقت ہونے کے باوجود اس کا کوئی جواب نہ دیں لیکن اس سورة اہل ایمان کو مسلم کالقب عطا کرکے دنیا بھر میں امن و سلامتی کا پیکر بنا گیا ہے اور انہیں حکم دیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں امن و سلامتی کے راستے میں یہ کفار و مشرکین آڑے آئیں تو ان کے خلاف طاقت استعمال کی جائے اور جہاد کیا جائے۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ قرآن کریم میں پہلی مرتبہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے اور جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
٭اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک شدید زلزلے کے نتیجے میں یہ ساری کائنات درہم برہم کردی جائے گی ہر چیز ختم ہوجائے گی۔ انسان دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ قیامت کا وہ دن بڑا دہشت ناک اور ہولناک ہوگا۔ جس میں ہر شخص پر ایک زبردست خوف طاری ہوجائے گا۔ فرمایا کہ ہر شخص کو اس دن کی فکر ہونا چاہیے۔ کسی کو اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا ہے ایک وقت وہ آنے والا ہے جہاں ہر انسان کو اپنے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے۔ پھر کوئی شخص جزا اور سزا سے بچ نہیں سکتا۔ قیامت کا آنا برحق ہے اس میں شک کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس سورة کی آیات میں کفار و مشرکین کو سیدھے راستے پرچلنے کی تاکید فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ اگر ان لوگوں نے کفر وشرک ‘ ضد ‘ ہٹ دھرمی اور ظلم و ستم کا راستہ تبدیل نہیں کیا اور وہ اپنی حرکتوں سے باز نہآئے تو ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا انجام بہت قریب ہے اور ان کا انجام دوسری بد عمل اور بدکردار قوموں سے مختلف نہ ہوگا۔
منافقین سے کہا گیا ہے کہ ابھی وقت ہے کہ وہ اپنی منافقانہ روش کو چھوڑ کر حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرمانبرداری قبول کرلیں۔ اگر یہ وقت نکل گیا تو پھر ان کو مہالت اور ڈھیل نہیں دی جائے گی۔
جن لوگوں نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا ان کو نصیحت کی جارہی ہے کہ وہ بھی اپنے ظلم و زیادتی اور زور زبردستی کے طریقوں کو چھوڑ کر راہ راست اختیار کرلیں۔
قیامت کے ہولناک اور دہشت ناک منظر کو پیش کر کے فرمایا گیا ہے کہ وہ ایسا خوفناک دن ہوگا۔ جب دودھ پلانے والی مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی۔ حاملہ عورتوں کے حمل ضائع ہوجائیں گے اور ہر شخص اس دہشت سے ایسا محسو کرے گا جیسے وہ کسی نشہ میں ہے حالانکہ یہ سب کچھ نشہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کے عذاب اور اس دن کی دہشت سے ہوگا۔ فرمایا کہ اس سخت ترین دن کے آنے سے پہلے پہلے اگر توبہ کرلی جائے تو اسی میں ان کے لیے بہتری ہے۔
کفار مکہ کو سمجھا یا گیا ہے کہ وہ جس طرح نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے سچے دین کو جھٹلا رہے ہیں۔ اہل ایمان پر مکہ کی زمین تنگ کر رہے ہیں اور دین کے راستے میں رکاوٹ بن رہے ہیں ابھی وقت ہے کہ وہ اپنے طرز عمل کو بدل ڈالیں ورنہ وہ وقت دور نہیں ہے جب ان کفار و مشرکین کو دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ملے گی اور آخرت میں ان کا بھیانک انجام ہوگا۔ اور وہ ہر طرح کی خیر و فلاح سے محروم رہیں گے۔
فرمیا گیا کہ تم نے جن بتوں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے تم ان کی عبادت و پرستش کرتے ہو ان سے اپنی مرادیں مانگتے ہو اور یہ سمجھتے ہو کہ یہ تمہارے خالق ومالک ہیں اور تمہاری ہر ضرورت کو پورا کردیں گے یہ خیال غلط ہے کیونکہ ان بتوں میں کوئی طاقت نہیں ہے۔ ان کی کمزوری اور بےبسی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے وجود کے لیے بھی تمہارے ہاتھوں کے محتاج ہیں۔ وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے بلکہ اگر اللہ کی پیدا کی ہوئی ایک مکھی بھی ان کی ناک پر بیٹھ جائے تو وہ اس مکھی کو اپنے بدن سے اڑا نہیں سکتے۔ وہ مکھی اگر ان کی کوئی چیز لے کر بھاگ جائے تو اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ جو اپنے نفع نقصان اور اختیار کے مالک نہیں ہیں وہ تمہارے نفع نقصان کے کیسے مالک ہو سکتے ہیں ؟ فرمایا کہ تمہارا خالق صرف ایک اللہ ہے وہی ہر طرح کی عبادت کا مستحق ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں ہے۔
فرمایا کہ وہ اللہ ہی تمہارا خالق اور پوری کائنات کا مالک ہے۔ ساری قدرت اسی ایک اللہ کی ہے۔ اس نے تمہارے ماں باپ اور تمہیں پیدا کیا ہے۔ اسی نے کائنات کو وجود بخشا ہے وہی اس کے نظام کو چلارہا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس نظام کے چلانے میں کسی کا محتاج ہے۔ وہی اللہ ہے جو اس سارے نظام کائنات کو لپیٹ کر رکھ دے گا تمہیں دوبارہ پیدا کرے گا اور پھر تم سے ایک ایک لمحہ کا حساب لے گا۔
اہل ایمان سے فرمایا جارہا ہے کہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے تمہارا نام ” مسلم “ رکھا ہے ۔ تم مسلم ہو۔ ساری دنیا میں امن و سلامتی قائم کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ اب ان کفار و مشرکین سے اقتدار چھین کر تمہارے حوالے کرنے کا وقت آگیا ہے۔ جب حکومت ‘ اقتدار اور مال و دولت تمہارے حصے میں آئے تو تم اس نظام زندگی کو قائم کر کے دکھا دینا جس میں نمازوں کے قیام اور زکوۃ کی پابندی سے تمام انسانوں کے لیے خیر و فلاح کے راستے کھل جائیں گے۔ ہر نیکی کو قائم کرنا اور دنیا سے ہر برائی کو مٹا کر انسانوں کی فلاح بہبود کے لیے جدوجہد کرنے کو عبادت سمجھنا تاکہ دنیا ظالموں کے پنجوں سے نجات پا کر صالح انسانوں کی قیادت میں آجائے۔
اہل ایمان سے یہ بھی فرمایا جارہا ہے کہ وہ دنیا میں زندگی گزارنے کا سلیقہ اور طریقہ اللہ کے سچے رسول آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سکیں جن کی زندگی کو اللہ نے ایک بےمثال نمونہ زندگی بنایا ہے۔ فرمایا کہ انسانیت کی نجات کا یہی ایک راستہ ہے اور اسی میں ان کی کامیابیاں پوشیدہ ہیں۔
اہل ایمان سے فرمایا جارہا ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کریں جس نے اس ساری کائنات کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ ایمان اور عمل صالح اختیار کریں گے تو دین و دنیا کی ساری بھلائیاں اور کامیابیاں ان کو عطا کی جائیں گی۔ قیامت میں انہیں راحت بھری جنتیں دی جائیں گی جہاں ہر طرح سلامتی ہی سلامتی ہوگی اور ان میں ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی۔