بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ المؤمنون - تعارف
تعارف
سورة نمبر 23 کل رکوع 6 آیات 118 الفاظ و کلمات 1070 حروف 4538 سورۃ المومنون مکہ مکرمہ کے دور متوسط میں نازل ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) کی شدید مخالفت کی جارہی تھی مگر ظلم و ستم میں شدت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی بعض ایسی صفات کا ذکر فرمایا ہے جو ان کو دنیا اور آخرت میں کامیاب و با مراد کرنے کی ضمانت ہیں۔ دنیا میں لوگوں نے کامیابی اور ناکامی کے کچھ پیمانے مقرر کر رکھے ہیں۔ جس کے پاس مال و دولت ‘ اولاد اور وسائل کی کثرت ہوتی ہے تو اس کو کامیاب ترین انسان اور بڑا آمی سمجھا جاتا ہے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ یہ مال و دولت جس نے اسے بڑا آدمی بنا یا ہے وہ کہاں سے آئی۔ ذرائع حلال تھے یا حرام۔ یہ سب مال اس نے ظلم و زیادتی ‘ رشوت ‘ چوری ‘ ڈکیتی سے حاصل کیا ہے یا کسی اور ذریعہ سے۔ اس کے برخلاف وہ شخص جو اپنی نیکیوں پر قائم ہے ‘ علم و عمل کا پیکر ‘ تقویٰ و پرہیز گاری جس کا طریقہ زندگی ہے ‘ رزق حلال کی وجہ سے وہ غربت و بےبسی کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے وہ چوری ‘ ڈکیتی اور ظلم و ستم کے بجائے اپنے ہاتھ سے روزی پیدا کرتا ہے تو ایسے شخص کو معاشرہ میں ناکام و نامراد سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کامیاب اور ناکام لوگوں کے لیے جو معیار مقرر کیا ہے وہ تقویٰ اور پرہیز گاری ہے یہاں انسانیت اور شرافت کو مال و دولت کے ترازو پر نہیں بلکہ نیکی ‘ اور پرہیزگاری اور تقویٰ کے پیمانوں سے ناپا جاسکتا ہے۔ فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور اللہ و رسول کی اطاعت و فرماں برداری کا پیکر بن گئے وہ دنیا و آخرت کے کامیاب ترین لوگ ہیں لیکن جنہوں نے اللہ و رسول کی نافرمانی کو اپنا شعار بنا لیا ہے دن رات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی لائی ہوئی تعلیمات کو جھٹلاتے ہیں۔ اپنی ضد ‘ تکبر ‘ غرور اور ہٹ دھرمی کے سامنے کسی کو کچھ نہیں سمجھتے تو فرمایا کہ ایسے لوگ انتہائی ناکام و نامراد ہیں۔ ایسے لوگ نہ تو دنیا میں کامیا ہوں گے اور نہ آخرت کی ابدی راحتوں سے ہم کنارہوں گے۔ فرمایا کہ جب ایسے نافرمان لوگوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو پھر ان کی حکومت و اقتدار ‘ مال و دولت ‘ زیب وزینت ‘ طاقت و قوت ‘ تہذیب و تمدن ‘ بلند وبالا عمارتیں جن پر انہیں ناز ہوتا ہے ریت کا ڈھیر بن جاتی ہیں چناچہ اللہ نے کفار کی تمام طاقتوں کے باوجود قوم نوح (علیہ السلام) اور قوم موسیٰ (علیہ السلام) پر پانی کا ایک زبردست طوفا بھیج کر ان کو تنکوں کی طرح بہادیا اور ان کی طاقت وقوت ان کے کوئی کام نہ آسکی۔ ان کو اور ان کی ترقیات کو غرق کردیا گیا۔ لیکن وہ لوگ جو دنیاوی اعتبار سے نہایت کمزور اور بےبس تھے ان کے ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے ان کو دنیاوی اقتدار و قوت دے دی گئی اور وہ زمین کے وارث بن گئے۔ جب سورة المومنون نازل کی گئی اس وقت تک حضرت عمر (رض) ایمان لاچکے تھے اور مسلمانوں کے حوصلے بلند اور تبلیغ اسلام میں ایک نئی روح بیدارہ چکی تھی۔ جب اس سورة کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو بعض صحابہ کرام (رض) نے ان کیفیات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جو نزول وحی کے وقت آپ پر طاری ہوتی تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس وقت مجھ پر ایسی دس آیتیں اتاری گئی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان کے معیار پر پورا ترے گا تو وہ یقیناً جنت کا مستحق بن جائے گا۔ پھر آپ نے سورة المومنون کی ابتدائی آیات کی تلاوت فرمائیں۔ سورۃ المومنون میں اسی حقیقت کو بتایا گیا ہے کہ دین و دنیا کی بھلائی اور کامیابی کن لوگوں کے حصے میں آئی۔ فرمایا کہ وہ لوگ جو صاحب ایمان ہیں ‘ جن کی عبادت و بندگی میں خشوع و خضوع اور عاجزی ہوتی ہے ‘ جو فضول باتوں سے بچتے اور اپنے دلوں کو ہر طرح ناپاکیوں اور عیبوں سے پاکرکھتے ہیں۔ جائز حدود میں رہتے ہوئے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ جن کا یہ حال ہے کہ وہ امانتوں کی نگہداشت کرنے والے عہد و ماہدوں کی پابندی کرنے والے اور نمازوں کی حفاظت کا جذبہ رکھنے والے ہیں وہ مومن ہیں اور کامیاب ہیں۔ سورۃ المئومنون کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی سات صفات بیان کی ہیں اور بتایا ہے کہ جو لوگ ایسی صفات کے مالک ہوں گے وہ کبھی ناکام و نامراد نہ ہوں گے بلکہ دین و دنیا کی بھلائیاں ان کے قدم چو میں گی۔ ساتوں صفات کی تصیل بھی ملاحظہ کرلیجیے۔ ١) خشوع و خضوع : دلی سکون و اطمینان ‘ اللہ کے سامنے خوف سے ساکن اور پست ہونا۔ حضرت ابو دردائ (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ؛ ” میری امت میں سب سے پہلے جو چیز اٹھالی جائے گی وہ خشوع و خضوع ہے۔ یہاں تک کہ قوم میں خشوع (عاجزی و انکساری) اختیار کرنے والا نظر نہ آئے گا۔ “ اس حدیث پر غور کیا جائے تو آج جو ہماری حالت ہے وہ اس سے مختلف نہیں ہے۔ ہم نمازیں پڑھتے ہیں مگر ان نمازوں میں اللہ کے لیے وہ عاجزی و انکساری اور توجہ الی اللہ نہیں رہی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نمازیں ‘ ہماری عبادات اور ہمارے معاملات خشوع سے خالی ہیں اور ہم ہر کام نہایت بےولی سے کرتے ہیں اس لیے ہمارے دل و دماغ اور روح پر روحانی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ ٢) لغویات سے پرہیز : مومن کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ ہر اس بات یا ہر اس کام سے بچ کر چلتا ہے جو بےکار ‘ بےفائدہ اور بےمقصد ہو۔ جس میں نہ دنیا کا فائدہ نہ آخرت کی کامیابی ‘ نہ کوئی اچھا مقصد حاصل ہوتا ہے۔ یہ گناہ بےلذت ہم زندگی بھر کرتے رہتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہماری مجلسیں ‘ محفلیں اور اجتماعات ان لغویات سے بھر پور ہیں جن میں سوائے ایک دوسرے کی غیبت چغل خوری اور سازشوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے ؛ ” انسان کا اسلام اسی وقت اچھا ہو سکتا ہے جب وہ لغو ( بےہودہ ‘ بےکار ‘ بےفائدہ باتوں کو) کو چھوڑ نہ دے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ ایک مومن کی یہ شان ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور طاقتوں کو بےکار باتوں میں الجھا کر ضائع نہیں کرتا بلکہ ہر طرح کی لغویات سے بچ کر اپنی نمازوں اور عبادات میں مقصدیت پیدا کرتا ہے۔ ٣) تزکیہ نفس : مومنوں کی تیسری صفت یہ ہے کہ وہ اپنے دل کو ہر طرح کے برے خیالات سے پاک صاف رکھتا ہے۔ کفر و شرک ‘ تکبر و غرور ‘ دکھاوا ‘ بغض وحسد ‘ کینہ پروری ‘ لالچ ‘ کنجوسی ‘ غیبت ‘ چغل خوری ‘ دوسروں پر الزام لگانے سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے۔ اپنے دل و دماغ کو پاک صاف رکھتا ہے تاکہ انورات الہی سے اس کے من کے دنیا منور و روشن ہوجائے۔ ٤) شرم گاہوں کی حفاظت : مومن کی چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنی شرم گاہوں کو ہر طرح کے گناہوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور ان کا استعمال وہیں کرتے ہیں جہاں اللہ اور اس کے رسول نے اجازت دی ہے۔ جو لوگ اس معاملہ میں حدود پار کرجاتے ہیں وہ ظالم ہیں جنہیں اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ جس قوم میں زنا ‘ بدکاری ‘ اور لواطت عام ہوجاتی ہے وہ معاشرہ برباد ہو کر رہتا ہے۔ اگر اس معاشرے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور پھر ان گناہوں کا چلن ہو تو ان کو سزا ملنے میں دیر نہیں لگتی لیکن اگر کافر معاشرہ ہے تو اللہ ان کو سنبھلنے اور سمجھنے کے لیے مہلت اور ڈھیل دیتا ہے۔ اگر وہ اپنی اس روش سے باز نہیں آتے تب اللہ ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچلیتا ہے جس کا وہ اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ یہ اللہ کا وہ فیصلہ ہے جسے اللہ کبھی تبدیل نہیں کرتا۔ نزول قرآن کے وقت غلامی کا دور چلا آرہا تھا جس میں انسانوں کی خریدو فرخت ہوا کرتی تھی اور غلام باندیوں کا رواج تھا۔ غلام اور باندیاں ایک ذاتی ملکیت کی طرح ہوا کرتی تھیں۔ وہ جس طرح چاہتے ان کو استعمال کرتے تھے ۔ یہ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیض رحمت ہے کہ دنیا سے غلامی کا رواج ختم ہوگیا۔ اگر دین اسلام نہ ہوتا تو شاید دنیا سے غلامی کا دور کبھی ختم نہ ہوتا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حکم سے ایسے طریقے اختیار فرمائے جس سے آہستہ آہستہ غلامی ختم ہو کر رہ گئی۔ تاہم جب تک اس مقصد کی تکمیل نہیں ہوگئی اس وقت تک دین اسلام نے ہمیں اجازت دی ہوئی تھی۔ فرمایا کہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور باندیوں کے جہاں اللہ نے اجازت دے رکھی ہے۔ لیکن اس کے سوا ہر جگہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ ٥) امانت کا خیال رکھنا : مومن کی پانچویں صفت یہ ہے کہ جب اس کے پاس کوئی امانت رکھوائی جاتی ہے تو وہ اس میں کسی طرح کی خیانت نہیں کرتا۔ اسی لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے جس میں امانت نہیں اس میں دین نہیں۔ ا کی جگہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بیان فرمایا کہ منافق میں کیا کیا خرابیاں اور علامتیں ہوتی ہیں اسی میں فرمایا کہ منافق وہ ہے کہ جب اس کے پاس کوئی امانت رکھوائی جاتی ہے تو وہ اس میں خیانت ضرور کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دیانت و امانت مومن کا سب سے بڑا وصف اور صفت ہے۔ بہر حال بےایمانی اور ایمان ایک ساتھ نہیں چلتے۔ ٦) عہد کی پابندی : مومن کی چھٹی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے عہد و پیمان کا پابند ہوتا ہے اور کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اے مومنو ! تم اپنے وعدوں کو پورا کرو۔ اگر تم اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرو گے تو کل قیامت کے دن اللہ کے ہاں اس کا جواب دینا ہوگا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو اپنے وعدے وعید پورے نہیں کرتا وہ مومن نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ عہد کی پابندی اور عہد شکنی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ جو وعدہ خلافی کرنے والا ہے وہ درحقیقت حقیقی مومن نہیں ہے۔ ٧) نمازوں کی حفاظت : مومن کی ساتویں صفت یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتا ہے۔ وقت پر نماز کی ادائیگی ‘ پورے آداب کا لحاظ ‘ خشوع و خضوع کی پابندی مومن کا مزاج ہوتا ہے۔ فرمایا کہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ انسان کا کاروبار یا زندگی کی ذمہ داریاں اس کو نمازوں سے غافل کردیں بلکہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ نمازوں کی حفاظت کا اہتمام کرتے ہیں۔ یقیناً وہ ہی لوگ کامیاب و بامراد ہیں اور سچے مومن ہیں جن میں مذکورہ تمام صفات موجود ہیں۔
Top