تعارف
سورة نمبر 26
کل رکوع 11
آیات 227
الفاظ و کلمات 1347
حروف 5689
سورۃ الشعراء مکہ مکرمہ کے درمیانے دور میں نازل کی گئی ہے جس میں سات جلیل القدر پیغمبروں کی دین اسلام کی سربلندی کے لیے جدوجہد اور ان کی قوم کی نافرمانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ جب ان کی قوموں کا کفر اور شرک انتہاء کو پہنچ گیا تو اللہ نے ان قوموں کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دیا اور آج ان کے کھنڈرات ان کی نافرمانیوں کی داستان بن کر نشان عبرت بنے ہوئے ہیں۔
کفار مکہ کے سامنے جب اللہ کا ابدی پیغام پہنچانے کے لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوشش فرماتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طرح طرح کے اعتراض کیے جاتے اور کفار طرح طرح کے مطالبات کرتے تھے کبھی کہتے کہ اے نبی ! اگر آپ سچے ہیں تو مکہ کے چاروں طرف جو پہاڑ ہیں ان کو ہٹا کر میدان بنا دیجئے ‘ چاروں طرف ریگستان ہے ان میں پانی کی نہریں بہاد یجیے یا کم ازکم ایک پہاڑ سونے کا بنادیا ہوتا یا کوئی فرشتہ آپ کے ساتھ ہوتا جو آپ کے ساتھ چلتا۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے بچکانہ مطالبات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی یہ قدرت ہے کہ یہ جیسا کہہ رہے ہیں اللہ ایسا ہی کردے لیکن جو قرآن جیسی عظیم کتاب اور عظیم صفتوں کے حامل حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ کر ایمان نہیں لاتے وہ معجزات کو دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں گے۔
ان آیات کو پڑھ کر بعض حضرات معجزات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کریم کے سوا کوئی معجزہ نہیں دیا گیا حالانکہ یہاں اور قرآن کریم میں متعدد و مقامات پر صرف یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم ایک ایسا معجزہ ہے جس کے سامنے ساری دنیا کو گونگا کہنے والے خود حیران ہیں کہ ہم وہ زبان کہاں سے لائیں جو قرآن جیسی کتاب کو پڑھ کر اس جیسا قرآن لانے کی کوشش کرسکے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لاتعداد معجزات دیئے ہیں جن کی تفصیلات احادیث میں بیان فرمائی گئی ہیں۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اپنے معجزات لوگوں کی فرمائش پر دکھائے ہوں لیکن اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سیکڑوں معجزات صادر فرمائے ہیں جن کے گواہ لاکھوں کی تعداد میں صحابہ کرام (رض) ہیں۔ قرآن کریم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے بہت سے انبیاء کرام (علیہ السلام) سے معجزات ظاہر ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود کفار ان پر ایمان نہ لائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر معجزات آنے کے بعد قوم ایمان نہ لائے تو پھر اللہ کا شدید ترین عذاب نازل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور ایمان نہ لانے والوں کو سخت سزادی جاتی ہے۔
فرمایا گیا کہ یہ قرآن کریم قیامت تک ساری انسانیت کی رہبری کرتا رہے گا۔ یہ قرآن سادہ تعلیمات کی کتاب ہے یہ نہ شعر ہے نہ سحر نہ کہانت ہے بلکہ یہ وہ کلام الہی ہے جس کو اللہ معجزہ بنا کر نازل کیا ہے ۔ اب یہ ہر انسان کا اپنا کام ہے کہ اس کی تعلیمات سے فائدہ اٹھا کر اپنے لیے دنیا و آخرت کی سعادتیں حاصل کرے یا اپنے لیے دنیا اور آخرت کی بربادیوں اور نحوستوں کو دعوت دے۔
چناچہ سورة الشعرا میں سات انبیاء کرام (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ ان کی قوموں نے ان سے معجزات کے مطالبات کیے جب اللہ نے وہ معجزات دکھادیئے تو کفار و مشرکین نے ان کو جادوگری ‘ کہانت اور شعر و شاعری قراردیا اور ایمان نہ لائے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان نافرمان قوموں کو تباہ و بر باد کردیا گیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان آیات کو سامنے رکھ کر معجزات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرنا ایک بہت بڑی جہالت اور نا واقفیت ہے البتہ اللہ تعالیٰ نے اس بات پر زور دے کر فرمایا ہے کہ مکہ والو ! تم گزشتہ قوموں کا جیسا مزاج نہ بنائو جنہوں نے اپنے اپنے نبیوں سے معجزات کے مطالبات کیے اور پھر بھی وہ ایمان نہ لائے جس کی وجہ سے ان کو تہس نہس کردیا گیا۔
اگر حقیقت میں کسی کو ایمان لانا ہے اور اس میں ایمان لانے کی طلب اور تڑپ ہے تو فرمایا کہ یہ قرآن مبین موجود ہے اس کی آیات ‘ اس کے احکامات بالکل صاف صاف اور واضح ہیں اور حق و باطل کو چھانٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ اس کی تعلیمات اس قدر صاف ‘ سیدھی اور بچی ہیں کہ ان کو پڑھنیکے بعد ہر شخص نہایت آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کریم انہیں کس چیز کی طرف بلارہا ہے اور کن باتوں سے روک رہا ہے۔ اگر وہ اس واضح سچائی کو مانتا ہے تو یہ اس کی سعادت ہے لیکن اگر وہ نہیں مانتا تو کم از کم وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ قرآن کریم کی باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں۔
فرمایا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ کفار مکہ اس کلام الہیٰ کو پڑھنے ‘ سمجھنے اور عمل کرنے کے بجائے اس کو شعر و شاعری قرار دیتے ہیں۔ فرمایا کہ قرآن کریم نہ شعر ہے نہ سحر ہے نہ کہانت ہے بلکہ زندگی کی سچائیاں ہیں۔
فرمایا کہ عام طور پر شاعر تو وہ ہیں جو گم راہی کے پیروکار ہوتے ہیں ان کے شعروں میں ذاتی فخر و غرور ‘ قومی جہالت ‘ عورتوں کے حسن و جمال ‘ عشق بازی ‘ شراب نوشی اور فسق و فجور کے سوا کیا ہوتا ہے اور جو بات وہ کہتے ہیں عام طور پر وہ اس پر عمل بھی نہیں کرتے۔ شاعروں کی زندگیاں بےعملی کا شکار ہوتی ہیں البتہ اگر ایمان اور عمل صالح کے ساتھ شاعری ہو تو وہ دوسری بات ہے کیونکہ اس میں شاعری کا انداز بےحقیقت نہیں ہوگا۔ بلکہ اس میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا انداز جھلکتا ہوا نظر آئے گا۔
فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک شاعر ہونے اور اشعار کہنے کا جو الزام لگایا جاتا ہے وہ بنیادی طور پر اس لیے غلط ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات راہ ہدایت اور صراط مستقیم ہیں اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ہر شخص کے سامنے ہے آپ میں نہ شاعروں کی ادائیں ہیں اور نہ بےعملی کی زندگی بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو سراپا حسن عمل ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شعر و شاعری اور اس طرح کی گمراہی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔