بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ آل عمران - تعارف
تعارف
سورة نمبر ٣۔ رکوع ٢٠ ، آیات ٢٠٠، الفاظ وکلمات ٣٥٤٢۔ حروف ١٥٣٣٦۔ مقام نزول مدینہ منورہ۔ نبی کریم نے سورة بقرہ اور سورة آل عمران کو سورج اور چاند کے ساتھ تشبیہ دی ہے، فرمایا یہ دونوں سورتیں قیامت کے دن دو بادلوں کی شکل میں ظاہر ہوں گی۔ ایک جگہ آپ نے ان دونوں سورتوں کو کھلے ہوئے پھولوں سے تشبیہ دی ۔ اس سے معلو م ہوا کہ یہ دونوں سورتیں ایک دوسرے سے بہت مناسبت رکھتی ہیں۔ تعارف سورة آل عمران فتح مکہ کے بعد جب پورے جزیرۃ العرب پر اہل ایمان کی حکومت وسلطنت قائم ہوچکی تھی 9 ؁ میں نجران کے بڑے بڑے عیسائی پادریوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے کی درخواست کی تاکہ وہ اپنے عقائد کے مطابق عیسائی مذہب کی تشریح کرسکیں۔ نبی کریم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نصاریٰ یعنی عیسائی پادریوں کو آنے کی اجازت مرحمت فرمادی ۔ نجران عرب کے جنوبی علاقے یمن کی ایک بستی کا نام ہے نجران اسی طرح عیسائیوں کا مرکز تھا جس طرح موجودہ دور میں ویٹی کن یورپ میں عیسائیت کی تبلغ کا مرکز ہے ان لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بحث و مباحثہ کے لیے ساٹھ جید اور ماہر مبلغین (پادریوں) کا وفد بھیجا جو عیسائی دنیا ہی میں نہیں بلکہ بادشاہوں کے دربار میں بھی بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اس وفد میں بعض ایسے زبردست اور چرب زبان مقرر بھی جن کی دھاک پوری عیسائی دنیا پہر بیٹھی ہوئی تھی۔ خاص طور پر عبدالمسیح عاقب بڑا دولت مند اور اپنی قوم کا سردار مانا جاتا تھا۔ اسی طرح ایھم السید جو رائے، تدبیر جوڑ توڑ اور ذہانت میں ایک خاص مقام اور درجہ رکھتا تھا۔ ابو حارثہ ابن علقمہ بھی عیسائیوں کا شعلہ بیان مقرر اور مشہور پادری تھا۔ غرضیکہ ساٹھ آدمیوں کا یہ وفد ایک سے ایک مقرر اور اپنی قوم کے قابل احترام لوگوں پر مشتمل تھا۔ جب یہ وفد مدینہ منورہ پہنچا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اسلامی اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ان مہمانوں کے ساتھ اسلامی اخلاق اور اسلامی تعلیمات کے مطابق عزت واحترام کا معاملہ کیا جائے۔ چناچہ اس پورے وفد کو صحابہ کرام (رض) نے پورے آرام سے ایک جگہ ٹھہرایا۔ یہ بات ذہن میں رکھ لیجئے کہ جب یہ غیر مسلموں کا وفد آیا تھا اس وقت تک مدینہ منورہ کو حرام کا درجہ نہیں دیا گیا تھا، اس کے بعد مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ منورہ کو بھی حرم کا درجہ دے دیا گیا تو اب قیامت تک مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور پورے حرم کی حدود میں کسی بھی غیر مسلم کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جب اس وفد نے رات بھی اچھی طرح آرام کرلیا تو آپ نے اس وفد کے لوگوں کو اپنے پاس آنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ اس وفد کے لوگوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور عیسائیت کو سچا بتانے کے لیے محتلف باتیں کیں اور بتایا کہ ہم اگر حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا ثابت کرنے کی باتیں کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ (1) حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ (2) وہ مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے (3) وہ مٹی سے پرندے بناکر جب ان کو پھونک مارتے تو وہ زندہ ہوکر اڑ جاتے تھے (4) جب وہ پیدائشی اندھوں کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرتے تو وہ آنکھوں والے ہوجاتے تھے (5) وہ کوڑھیوں کو صحیت مند بنادیتے تھے (6) وہ لوگوں کو غیب کی خبریں بتا دیا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ (7) اس وفد نے قرآن کریم کی چند باتوں کا حوالہ دے کر کہا کہ قرآن نے بھی حضرت عیسیٰ کا کلمۃ اللہ اور روح اللہ کہا ہے (8) انہوں نے یہ بھی کہا کہ اللہ نے بھی قرآن میں جگہ جگہ یہ کہا ہے کہ ہم نے پیدا کیا۔ ہم نے یہ کام کیا، ہم نے قرآن کو نازل کیا وغیرہ ان کا کہنا تھا کہ قرآن سے بھی ثابت ہے کہ (نعوذباللہ) اللہ تنہا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ دوسرے بھی شریک ہیں۔ اس وفد کے یہ سوالات تھے جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سورة آل عمران کو نازل کیا اور عیسائی وفد کی ایک بات کا واضح دلیلوں کے ساتھ جواب دیا۔ جب اس وفد نے پانے سوالات کرلیے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جواب دیتے ہوئے پوچھا کہ 1 ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ بیٹا باپ جیسا ہوتا ہے ؟ وفد نے کہا کیوں نہیں 2 ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم جانتے ہو اللہ وہ ہے جس کو موت نہیں آتی وہ زندہ رہے گا جب کہ حضرت عیسیٰ کو موت سے ضرور واسطہ پڑے گا ؟ وفد کے لوگوں نے کہا جی ہاں ایسا ہی ہے۔ 3 ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ نے ہر چیز کو وجود دے کر اس کو اپنے دست قدرت سے تھام رکھا ہے وہ اس کا محافظ اور نگران اور رزق پہنچانے والا ہے ؟ آپ نے پوچھا ان میں سے کوئی بات بھی حضرت عیسیٰ میں تھی ؟ وفد نے کہا جی نہیں۔ 4 ۔ آپ نے فرمایا اللہ وہ ہے جس سے زمین وآسمان کی کوئی چیز پوشیدہ یا چھپی ہوئی نہیں ہے جبکہ عیسیٰ کو اللہ نے جتنا علم دیا تھا وہ اس سے زیادہ نہ جانتے تھے ؟ وفد نے اس کا بھی اقرار کیا۔ 5 ۔ آپ نے فرمایا پروردگار نے حضرت عیسیٰ کی شکل و صورت اپنی مرضی سے ماں کے پیٹ میں بنائی ؟ کہا جی ہاں 6 ۔ آپ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ کھانے پینے اور دوسری حاجات کا محتاج نہیں ہے ؟ وفد کے لوگوں نے کہا جی ہاں اللہ ان میں سے کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔ 7 ۔ آپ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ حضرت مریم (رض) نے حضرت عیسیٰ کو اسی طرح نومہینے تک اپنے شکم میں رکھا جس طرح عام بچے شکم مادر میں رہتے ہیں۔ پیدا ہونے کے بعد کیا ان کو غذا نہیں دی گئی ؟ وفد نے کہا بےشک۔ 8 ۔ آپ نے آخری بات پوچھی کہ اگر حضرت عیسیٰ میں یہ باتیں تھیں جن کا تم بھی انکار نہیں کرسکتے تو یہ بتاؤ وہ اللہ تھے یا اللہ کے بندے تھے ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوالات اس قدر بھرپور تھے کہ سب کے سب لاجواب ہوکر شرمندہ سے ہوگئے تھے لیکن سچائی کو جان لینے کے باوجود انہوں نے اپنی انا کا مسئلہ بنائے رکھا اور کہا کہ ہم ان تمام باتوں پر غور کریں گے۔ سورة آل عمران میں ان کے تمام سوالات کے جوابات دیئے ہیں اور بتایا ہے کہ اگر عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا تو بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے تھے کیا نعوذ باللہ وہ بھی معبود تھے۔ مرودں کو زندہ کرنا، مٹی سے پرندے بناکر پھونک مارنے سے ان کا زندہ ہونا ، پیدائشی نابینا کو آنکھوں والا بنانا یہ سب کچھ حضرت عیسیٰ نے کرکے یہ نہیں فرمایا کہ یہ میرا کارنامہ ہے۔ بلکہ وہ فرماتے تھے کہ یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہوا ہے۔ اس نے میری زبان میں یہ تاثیر عطا فرمائی ہے کہ جب میں پھونک مارتا ہوں یا نابینا کی آنکھوں پر کوڑھیوں کے جسم پر ہاتھ پھیرتا ہوں اور مردوں سے کہتا ہوں کہ اللہ کے حکم سے اٹھ جاؤ تو وہ زندہ اور صحت مند ہوجاتے ہیں سورة آل عمران میں اللہ نے اس کا جواب بھی دیا ہے کہ جب اللہ جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہیں یا حضرت عیسیٰ کو کلمتہ اللہ یا روح کہتے ہیں تو یہ سب ” آیات متشابھات “ ہیں۔ قرآن کریم کی ان ہی آیات اور الفاظ کو پکڑ کر بیٹھ جانا غلط ہے کیونکہ قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں اللہ تعالیٰ کی توحید بیان فرمائی گئی ہے خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہتے ہیں کہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اسی لیے علماء نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات بعض آیات کی تشریح ہیں۔ جب عیسائی وفد کے سامنے ساری حقیقتیں کھول کر بیان کردی گئیں تب اللہ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر یہ لوگ اب بھی دین اسلام کی سچائی کو نہیں مانتے تو ان سے کہیے کہ وہ خود اور اپنے بال بچوں کو لے کر صبح کھلے میدان میں آجائیں ہم بھی اپنے آپ کو اور گھروالوں کو لے کر آجاتے ہیں پھر اللہ کی قسم کھا کر کہیں گے کہ اے اللہ ہم میں سے جو بھی جھوٹا ہے اس پر آپ کا غضب نازل ہوجائے۔ جب عیسائی وفد کو اس مباہلہ یعنی قسم کھانے کی دعوت دی گئی تو وہ بوکھلاگئے اور کہنے لگے ہم اس مسئلے پر رات کو غور کرکے جواب دیں گے لیکن وہ اس بات سے اس قدر ڈرگئے کہ بغیر بتائے راتوں رات مدینہ سے بخران کی طرف چپکے سے بھاگ گئے اور انہوں نے ” مباہلہ “ کے چیلنج کو قبول نہیں کیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس پورے وفد کو ذلت سے دوچار کیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دین اسلام اور صحابہ کرام (رض) کو سرخ رو فرمادیا۔ اب آپ پوری سورة آل عمران کی آیات کی تفصیل ملاحظہ کریں گے جس میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والوں کو دین اسلام کی سچائی اور عسائیت کے غلط عقیدوں کی اصلاح فرمادی ہے۔ اس سورت کے آخر میں دو غزوات (اسلامی جنگوں) کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ غزوہ بدر اور غزوہ احد یہ دونوں جنگیں وہ تھیں جن کے نتائج یعنی کفار کی بدترین شکست سے جزیرۃ العرب اور بڑی طاقتیں چونک اٹھیں اور وہ اسلام کی اس چھوٹی سی سلطنت کو جڑوبنیاد سے اکھاڑنے کی تدبیروں میں لگ گئیں اس لیے اہل ایمان کو یہودیوں، نصاریٰ ، کفار ومشرکین اور منافقین سے ہوشیار رہنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ مدینہ منورہ کے یہودیوں ، عرب کے نصاریٰ ، کفار ومشرکین کے تمام قبیلے اور آستین میں چھپے سانپ منافقین اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اسلام کے اس پودے کو اکھاڑنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور اللہ نے شدید مخالفتوں کے باوجود اس چھوٹے سے پودے کو ایک تناور درخت بنادیا اور آہستہ آہستہ ساری دنیا پر اسلام کی حقانیت ثابت ہوکر رہی اور انشاء اللہ اب قیامت تک اس تنا ور درخت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یہ ہوسکتا ہے کہ مخالفت کی تیز آندھیوں میں اس درخت کے کچھ پتے گرجائیں ۔ شاخیں ٹوٹ جائیں کھبی خزاں کا موسم آجائے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ درخت اپنی بنیادوں سے اکھڑجائے۔ کیونکہ اب ساری انسانیت کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اس دین کو اپنا لیں اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں ان کے دامن اطاعت و محبت سے وابستہ ہوجائیں ۔ ذٰلک الفوذ العظیم (یہی سب سے بڑی کامیابی ہے) ۔
Top