بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ النمل - تعارف
تعارف
سورة نمبر 27 کل رکوع 7 آیات 93 الفاظ و کلمات 1167 حروف 4879 یہ سورة مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جس میں توحید خالص کی تعلیم ‘ عظمت نبوت ‘ فکر آخرت اور تخلیق کائنات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اس سورة میں چند انبیاء کرام کا ذکر کرکے بتایا گیا ہے کہ انہوں نے کس طرح اللہ کا دین پہنچایا ان کے لیے دنیا کی مال داری اور سرداری ان کی تبلیغ دین میں رکاوٹ نہیں بنی بلکہ انہوں نے سب کچھ ہونے کے باوجود اللہ کا شکر ادا کیا اور اللہ کا دین پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ‘ حضرت دائود (علیہ السلام) ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا۔ دوسری طرف قوم فرعون ‘ قوم ثمود اور قوم لوط کی نافرمانیوں کا ذکر کر کے بتایا کہ اللہ کا یہ دستور ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو بچا لیتا ہے اور منکرین کو مٹادیتا ہے یہ اس کا نظام ہے۔ بلکہ بلقیس جو سورج کو اپنا معبود سمجھتی تھیں جب ان کو اللہ کا دین پہنچا تو انہوں نے اپنے شرک سے توبہ کرلی اور وہ اللہ کی فرمانبردار ہو کر عزت و عظمت کے بلند مقام کو حاصل کرسکیں۔ نمل ‘ چونٹی کو کہتے ہیں۔ اس سورة میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے چیونٹیوں کی ایک وادی کا ذکر ہے اسی مناسبت سے اس سورة کا نام النمل رکھا گیا ہے۔ اس سورة میں عبرت و نصیحت کے لیے چند انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی نافرمان قوموں کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا ہے کہ ایک طرف تو فرعون قوم ثمود اور قوم لوط تھی جن کو انبیاء نے اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور حسن عمل کرنے پر بشارتیں دیں لیکن انہوں نے نافرمانی اور گناہ کے راستے کا انتخاب کرلیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ‘ حضرت صالح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں کو بچا لیا گیا اور نافرمان قوموں کو ان کے گناہوں کے سبب جڑ و بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ ان کی بستیاں ان پر الٹ دی گئیں اور انہیں سمندر میں غرق کردیا گیا۔ ان کی ترقیات ‘ مال و دولت اور اونچی عمارتیں ان کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکیں۔ دوسری طرف حضرت دائود ؐ اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو حکومت و سلطنت اور تمام دنیاوی طاقتیں عطا کی گئیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو چرند ‘ پرند اور درند میں سے ہر ایک کی زبان اور بولی سکھائی گئی۔ انسان اور جنات کو ان کے تابع کردیا گیا پوری دنیا پر ان کی حکومت تھی لیکن اس سب کے باوجود نہ ان میں اپنی سلطنت و طاقت کا غرور تھا نہ انہوں نے اپنی طاقت کو مظلوموں کو تباہ کرنے کا ذریعہ بنایا بلکہ قدم قدم پر اللہ کی نعمتوں کا شکر اور عاجزی و انکساری کو روشن زندگی بنائے رکھا۔ ملکہ بلقیس کا ذکر کرکے مکہ مکرمہ کے کافروں سے یہ کہا جارہا ہے کہ اب فیصلہ کرنا ان کا اپنا کام ہے کہ وہ تاریخ کی سچائیوں پر ایمان لاتے ہیں یا ان پر تاریخ کو پھر سے دہرایاجائے۔ اگر انہوں نے ملکہ بلقیس کا طریقہ اختیار کیا کہ وہ مشرکہ تھیں ‘ سورج کو اپنا معبود مانتی تھیں لیکن جب ان پر اسلام کو پیش کیا گیا تو انہوں نے کفر و شرک سے توبہ کر کے اللہ کی فرمانبرداری اختیار کرلی اور اس طرح دنیا اور اپنی آخرت کو سنوار لیا۔ ان کو اختیار ہے اگر وہ چاہیں تو قوم فرعون ‘ قوم ثمو اور قوم لوط کا طریقہ اپنا لیں جنہوں نے اللہ کی سرزمین پر ناحق غرور تکبر کیا اور اپنی طاقت و قوت کے نشے میں اللہ اور اس کے رسولوں کی نافرمانی اختیار کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام تر طاقت و قوت کے باوجود ان قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر عبرت کا نمونہ بنادیا گیا۔ آج ان کے عالی شان مکانات کے کھنڈرات ان کے غرور وتکبر کا منہ چڑا رہے ہیں۔ اگر وہ اللہ و رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے تو ان کو دنیا میں اس سے زیادہ عروج و ترقی دی جاتی جو وہ حاصل کرچکے تھے اور آخرت میں ان کو جنت کی ابدی راحتیں عطا کیے جانے کا وعدہ برحق ہے۔ اس سورة کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے وحدانیت اور تخلیق کا ذکر کرکے انسانوں کے ضمیر سے پوچھا ہے کہ زمین و آسمان ‘ چاند ‘ سورج ‘ ستارے ‘ چرند ‘ پرند ‘ درند اور خود انسانوں اور جنات کو کس نے پیدا کیا۔ فرمایا کہ اگر وہ غرور تکبر سے کام نہ لیں تو ان کے دل پکار اٹھیں گے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ ہی نے پیدا کیا ہے وہی اس کا رخانہ ہستی کو چلارہا ہے ساری قدرت اور سارا اختیار اسی ایک اللہ کا ہے۔ اس کے بر خلاف وہ معبود جن کو وہ اپنا حاجت روا مانتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی تمام تمناؤں کو وہ پورا کرتے ہیں وہ اپنے وجود میں خود انسانی ہاتھوں کے محتاج ہیں۔ وہ پیدا کیے جاتے ہیں لیکن کائنات میں وہ ایک ذرے کو بھی پیدا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ فرمایا گیا کہ جو اپنے نفع اور نقصان کے مالک نہیں ہیں وہ دوسروں کے نفع و نقصان کے مالک کیسے ہو سکتے ہیں ؟ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کی بات کوئی مانتا ہے یا نہیں مانتا آپ اعلان فرمادیجئے کہ میں اس اللہ کا فرماں بردار ہوں جس نے مجھے ایمان پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی۔ میں اس کا کلام تمہیں سناتا ہوں ‘ قرآن پڑھتا پڑھاتا ہوں ‘ نیک اور بہتر راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہوں جو شخص بھی میری بات سنے گا ‘ میری اطاعت کرے گا اس میں اسی کا فائدہ ہے لیکن جو شخص نافرمانی کا راستہ اختیار کے گا وہ دینا اور آخرت میں سوائے نقصان کے کچھ بھی حاصل نہ کرسکے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے یہ بھی کہلوایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اعلان کر دیجئے کہ میرا اللہ وہ ہے جو تمام خوبیوں ‘ عظمتوں اور تعریفوں کا مستحق ہے۔ بہت جلد قیامت آنے والی ہے۔ اس دن وہ اللہ انکار اور کفر و شرک کرنے والوں کو بتادے گا کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کس طرح ایک اچھا موقع ضائع کردیا ہے۔ اب ان کو اپنے اعمال کے برے نتائج کو بھگتنا ہوگا۔ کیونکہ وہ اللہ تمہارے کسی عمل سے بیخبر نہیں ہے۔
Top