تعارف
سورة نمبر 28
کل رکوع 9
آیات 88
الفاظ وکلمات 1454
حروف 6011
سورۃ القصص مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ اس کے ابتدائی پانچ رکوعوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ پانچویں رکوع میں قرآن کریم کی تعلیمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ بیشک تو ریت اور انجیل کو اللہ نے نازل فرمایا لیکن لوگوں نے ان میں ایسی باتوں کو شامل کردیا تھا جن کا تعلق اللہ کی اتاری ہوئی بنیادی تعلیمات سے نہیں تھا اب قیامت تک ساری انسانیت کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ قرآن کریم کی سچی تعلیمات پر چل کر راہ ہدایت حاصل کریں۔
قارون جو حضرت موسیٰ کی قوم سے تھا اور بےپناہ دولت کا مالک تھا۔ جس کے خزانوں کی چابیاں اٹھا کر ایک مضبوط جماعت بھی تھک جاتی تھی جب اس نے غرور وتکبر کیا تو اللہ نے اس کو اور اس کی دولت کو زمین میں دھنسا دیا وہ دولت اس کو اللہ کے عذاب سے نہ بچاسکی۔ اللہ کو کسی کا غرور وتکبر پسند نہیں ہے۔
سورۃ القصص جس کے ابتدائی پانچ رکوعوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات زندگی کو بڑی تفصیل سے ارشاد فرمایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر اپنا کلام نازل کیا مگر انسانی ہاتھوں نے اللہ کی تعلیمات کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
اب اللہ نے قرآن کریم کو نازل کیا ہے وہی قیامت تک انسانوں کی ہدایت کے لئے کافی ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھی ہے۔ بنی اسرائیل کی ہدایت کا سامان قرآن کریم میں ہے۔ اگر انہوں نے اس راستے کو چھوڑ دیا تو پھر قیامت تک ان کو راہ ہدایت نصیب نہ ہوگی۔
مصر میں دو قومیں آباد تھیں ایک قبطی حکمران ٹولہ جس کے حکمران کو فرعون کہا جاتا تھا۔ وہ پورے ملک میں پانچ فیصد بھی نہ تھے مگر ظالم حکمراں ہونے کی وجہ سے اپنی فوج کی قوت سے ان بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا رکھا تھا جو پورے ملک میں واضح اکثریت رکھتے تھے۔ چونکہ بنی اسرائیل بےعمل ہوچکے تھے اور پوری قوم اس قدر منتشر تھی کہ وہ کسی کو اپنا رہنما تسلیم نہ کرتی تھی۔ ان کے اس انتشار سے فائدہ اٹھا کر قبطیوں کا یہ مختصر سا ٹولہ ہر طرح کے ظلم وستم کرنے میں آزاد تھا۔
بنی اسرائیل مصر میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں آئے جن کی تعدادایک سو سے بھی کم تھی لیکن دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی وجہ سے ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی۔ قبطی اچھی طرح جانتے تھے کہ بنی اسرائیل ایک بہت بڑی قوت ہیں ان میں اگر اس کا شعور بیدار ہوگیا تو پھر قبطی اپنی تمام تر طاقت وقوت کے باوجود حکمرانی نہ کرسکیں گے۔ ان کے خوف کی انتہا یہ تھی کہ جب کسی نے یہ بتادیا کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا لڑکا پیدا ہونے والا ہے جو فرعون کے اقتدار کا خاتمہ کردے گا۔
فرعون نے حکم جاری کیا کہ اب بنی اسرائیل میں جو بھی لڑکا پیدا ہوگا اس کو قتل کردیا جائے گا چناچہ بنی اسرائیل میں جوب بھی لڑکا پیدا ہوتا اس کو ماں کی گود سے چھین کر قتل کردیا جاتا تھا۔ بنی اسرائیل کی کمزوریوں کی انتہا یہ تھی کہ جن ماؤں کی گود سے ان کے لخت جگر کو چھینا جاتا وہ اس پر احتجاج تک نہ کرسکتی تھیں۔ اسی دوران حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہکو بھی یہ خطرہ تھا کہ ان کی گود بھی ویران ہوجائے گی۔ اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے قلب میں یہ الہام فرمایا کہ وہ اس بچے کو کسی صندوق یا ٹوکری میں رکھ کر دریا میں بہا دیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے ایسا ہی کیا۔ ادھر اللہ نے اپنی قدرت کاملہ کا اس طرح اظہار فرمایا کہ وہ صندوق فرعون کے گھر والوں نے ہی پانی سے نکالا۔ سب کی رائے یہی تھی کہ اسے بچے کو قتل کردیا جائے مگر فرعون کی بیو حضرت آسیہ نے کہا کہ ہم اس بچے کو پرورش کریں گے اور اپنا بیٹا بنائیں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن کو اس کام پر مامور کیا تھا کہ وہ دیکھتی چلی جائیں کہ یہ صندوق کہاں پہنچتا ہے۔ جب وہ فرعون کے گھر میں پہنچ گیا تو انہیں اطمینان ہوا۔ ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو ایک چھوٹے سے دودھ پیتے بچے تھے انہوں نے رونا شروع کیا اور بھوک سے تڑپنا شروع کیا اور کسی کا دودھ نہ پیتے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن نے کہا کہ میں ایک ایسے خاندان سے واقف ہوں جو بچے کی پرورش اچھی طرح کرسکتے ہیں چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو بلایا گیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا دودھ پینا شروع کردیا۔ اس طرح اللہ نے ایک ماں کو اپنے بیٹے سے ملادیا فرعون کے گھر میں اسی بچے کی شاہانہ پرورش کرادی جس کے خوف سے وہ بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کر ارہا تھا۔
جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جوان ہوگئے تو وہ قبطیوں کے ظلم کو برداشت نہ کرسکے۔ ایک دن کوئی قبطی اور بنی اسرائیلی شخص کسی بات پر جھگڑ رہے تھے ۔ قبطی بنی اسرائیلی کو گھسیٹ رہا تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیلی کو اس ظلم سے بچانا چاہا تو وہ قبطی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے الجھ گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک گھونسا مارا تو وہ قبطی وہیں ڈھیر ہوگیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو افسوس ہوا کہ ان کے ہاتھوں ایک شخص کا قتل ہوگیا۔ انہوں نے اللہ سے اس خطا پر معافی مانگی جس کو اللہ نے قبول کرلیا اگلے دن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ وہی بنی اسرائیلی شخص کسی دوسرے آدمی سے جھگڑرہا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تو بڑاہی جھگڑا لو آدمی ہے اس کو پکڑنے کی کوشش کی تو اس نے یہ کہ کر شور مچا دیا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) جس طرح تم نے گذشۃ کل ایک قبطی کو مار دیا تھا مجھے بھی قتل کر دو گے۔ یہ بات فرعون کے کان تک پہنچ گئی اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو گرفتار کرنے کا حک جاری کردیا۔ کسی مخلص آدمی نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بتادیا کہ فرعون کے دربار سے آپ کو گرفتار کرنے اور قتل کرنے کے احکامات جاری ہوچکے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے اس ظلم سے بچنے کے لئے مصر سے نکل کر مدین کی طرف ہجرت کر گئے۔
مدین پہنچ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ایک کنویں پر لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں لیکن دو لڑکیاں اپنے جانوروں کو روکے ہوئے الگ تھلگ کھڑی ہوئی ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان پے پوچھا کہ تم الگ تھلگ کیوں کھڑی ہو ؟ انہوں نے کہا یہ تو ہمارے ہر روز کا معمول ہے جب سارے چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلالیتے ہیں تب ہمارا نمبر آتا ہے اور ہم اپنے جانوروں کو پانی پلاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کڑیل جوان تھے وہ آگے بڑھے اور انہوں نے ان لڑکیوں کے جانوروں کو پانی پلادیا۔ جب وہ دونوں لڑکیاں اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئیں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو کر فریاد کی الٰہی ! مجھے اس غربت میں آپ جو کچھ بھی عطا کریں گے اس کے لئے میں حاجت مند ہوں۔
ابھی وہ دعا اور فریاد کررہے تھے کہ وہی دونوں لڑکیاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں۔ ان میں سے ایک جو شرم وحیا کا پیکر تھی کہنے لگی ہمارے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہماری بکریوں کو پانی پلانے کی زحمت کی ہے اس کا کچھ بدلہ دے سکیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) روانہ ہوگئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جن کے پاس آئے تھے وہ حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے۔ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام واقعات سن کر فرمایا کہ اب تم مت گھبرائو۔ اللہ نے تمہیں ایک ظالم قوم سے نجات عطا کردی ہے۔ ان لڑکیوں میں سے ایک نے کہا ابا جان ! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان کو اپنے پاس ملازم رکھ لیں کیونکہ یہ انتہائی مضبوط اور دیانت دار آدمی ہیں۔
حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اگر آٹھ سال تک میری خدمت کرو تو میں اپنی لڑکیوں میں سے ایک لڑکی سے تمہارا نکاح کرسکتا ہوں۔ اور زور زبردستی تو ہے نہیں اگر تم خوشی سے دس سل پورے کرلو تو یہ تمہارا احسان ہوگا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس شرط کو قبول کرلیا اور اس طرح دس سال تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی خدمت کی۔ چناچہ ان کی ایک لڑکی سے ان کی شادی کردی گئی۔ دس سا ل کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی بیوی کو لے کر مصر کی طرف روانہ ہوگئے۔ شاید وہ اس اندھیری رات میں سردی کے موسم میں راستہ بھٹک گئے تھے۔ انہوں نے دور سے ایک روشنی کو دیکھا۔ کہنے لگے کہ میں ابھی اس آگ میں سے کوئی انگارہ لے کر آتا ہوں اور اگر کسی نے راستہ بتادیا تو اسی پر چل پڑیں گے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس وقت کوہ طور کے دامن میں تھے۔ جب وہ ایک درخت کے پاس پہنچے دیکھا کہ ایک درخت میں آگ سی لگی ہوئی ہے۔ اچانک آواز آئی اے موسیٰ یہ میں ہوں تیرا رب اللہ۔ یہی وہ موقع ہے جہاں اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور عصا اور ید بیضا کے معجزات عطا کر کے فرمایا کہ تم فرعون کے پاس جائو اور اس کی سرکشی کے گھمنڈ کو توڑ کر رکھ دو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا الہٰی ! میرے لیے ہارون کو جو زبان کے بڑے فصیح وبلیغ ہیں ان کو میرا مدد گار بنادیجئے۔ چناچہ اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بڑے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو ان کا معاون و مدد گار بنادیا۔
اللہ تعالیٰ کے پیغام کو لے کر یہ دونوں بھائی فرعون کے پاس پہنچے۔ اس کو سمجھایا اور معجزات دکھائے ۔ اس نے ان معجزات کو جادو قرار دے کر ملک بھر کے جادو گروں کو جمع کرلیا۔ لیکن جب ان جادوگروں نے دیکھا کہ ان کے بےحقیقت جادو کے سامنے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے معجزے کے طو پر اپنا عصا پھینکا تو وہ اژدھا بن گیا اور اس نے ان جادوگروں کے جادو اور طلسم کو توڑ کر رکھ دیا اور وہ سب جادو گر دائرہ اسلام میں دخل ہوگئے۔
آخرکار اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کامیابی اور فتح نصیب کی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) راتوں رات تمام بنی اسرائیل کو مصر سے فلسطین کی طرف لے چل پڑے۔ ادھر فرعون نے ان کا پیچھا کیا۔ اللہ نے پانی میں راستے بنادیئے۔ بنی اسرائیل پار اتر گئے مگر فرعون اور اس کے لشکر یوں کو پانی کی لہروں میں ڈبودیا گیا۔ اس طرح اللہ نے بنی اسرائیل کو کامیاب فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے ان سب کی ہدایت کے لئے ایک عظیم کتاب توریت عطا فرمائی تاکہ یہ قوم دین کے اصولوں کی روشنی میں زندگی کا سفر طے کرسکے۔ مگر انہوں نے اسی توریت میں اپنی طرف سے طرح طرح کی باتیں گھڑ کر اس کتاب کو مشکوک بنادیا۔
اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بیشک توریت و انجیل اللہ نے نازل فرمائیں لیکن انسانی ہاتھوں نے اور بنی اسرائیل کی بےعملی نے ان کی کتاب میں کافی بڑی مقدار میں ایسی باتیں شامل کردیں جو اللہ نے نازل نہیں کی تھیں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اب قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے قرآن حکیم جیسی عظیم کتاب نازل کی ہے جس کی حفاظت کا اس نے خود ذمہ لیا ہے۔
فرمایا کہ اب یہی قرآن ساری انسانیت کے لیے کافی ہے۔ اگر بنی اسرائیل اور دنیا کی سب قوموں نے قرآن کریم کی تعلیمات کو اپنا لیا تو ان کو ہدایت اور دین و دنیا کی تمام عظمتیں حاصل ہوجائیں گی۔ لیکن اگر اس قرآن کریم سے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے منہ موڑا گیا تو پھر قیامت تک ان کو کوئی اور ہدایت دینے والا نہ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو سچائی اور پاکیزگی کے ساتھ ساری دنیا کے لیے رہبر و رہنما بنایا ہے۔
آخر میں فرمایا گیا کہ لوگو ! یہ سارا نظام کائنات اللہ کے حکم سے چل رہا ہے۔ وہی دن کی روشنی اور رات کی تاریکی کو پیدا کرنے والا ہے۔ اگر وہ دن کی روشنی اور رات کی تاریکی کو ختم کرکے ایک ہی چال پر رہے دے تو انسانی حیات مٹ کر رہ جائے گی۔ یہ رات اور دن کا پورا نظام اس کی قدرت کاملہ سے چل رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے ایک شخص قارون کا ذکر کیا ہے جو بےپناہ دولت کا مالک تھا مگر اس کا غرور وتکبر اس کو لے ڈوبا۔ وہ مال و دولت اس کے کام نہ آئے بلکہ اللہ نے قارون اور اس کی دولت کو زمین میں دھنسا دیا۔ فرمایا کہ جو لوگ غرور وتکبر سے کام نہیں لیتے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہی عزت و سربلندی سے نوازتا ہے لیکن جو لوگ غرور تکبر اور بڑائی اختیار کرتے ہیں اللہ ان کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔