تعارف
(سورۃ نمبر ٣٣) ۔
(کل رکوع ٩) ۔
آیات ٧٣) ۔
(الفاظ و کلمات ١٢١٠) ۔
(حروف ٥٩٠٩) ۔
(مقام نزول مدینہ منورہ) ۔
(تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے ظلم و زیادتی کے لیے کسی قوم اور ملک پر جنگ کو مسلط نہیں کیا اور اگر کبھی ضرورت ہوئی تو اپنی جنگی اور اخلاقی طاقت سے دنیا کے دلوں کو فتح کیا۔ اس کے برخلاف کفروشرک اپنے آپ کو اتنا کمزور سمجھتے ہیں کہ وہ دوسری قوموں پر جنگ مسلط کرنے کے لیے دوسروں کو ساتھ ملا کر متحدہ محاذ بنا لیتے ہیں اور ان کو اتحادی فوجیں کہتے ہیں۔ یہی صورتحال اس وقت پیش آئی جب کفار مکہ نے اسلام دشمنی پر کفر کی ساری طاقتوں کو جمع کر کے مدینہ کی چھوٹی سی اسلامی ریاست کو مٹانے کے لیے چاروں طرف سے حملہ کردیا تھا مگر اتحادی فوجوں کو سوائے ذلت و رسوائی کے اور کچھ حاصل نہ ہوسکا اور اللہ نے اہل ایمان کی اس طرح مدد فرمائی کہ کفر کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ )
الاحزاب کے معنی ہیں خندقیں، جماعتیں یعنی دین اسلام کی مخالفت اور اس کو جڑو بنیاد سے اکھاڑنے کے لیے بت پرست کفارومشرکین، یہودیوں اور انصاریٰ کا متحدہ محاذ۔
کفار عرب غزوہ احد میں بد ترین شکست اور ذلت کے بعد اپنی بوٹیاں نوچ رہے تھے اور جذبہ انتقام میں چھوٹی چھوٹی حرکتوں پر اترآئے تھے اور انہوں نے طے کرلیا تھا کہ مسلمانوں کو اس طرح پریشان کیا جائے جس سے وہ اطمینان کا سانس نہ لے سکیں۔ چناچہ عضل وقارہ قبیلے والوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمائش کی کہ چند مسلمانوں کو دینی تعلیم دینے کے لیے بھیجا جائے تاکہ نئے ہونے والے مسلمان ان سے دینی تعلیم حاصل کرسکیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھ صحابہ (رض) کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔ مگر انہوں نے غداری کی چار صحابہ کرام (رض) کو شہید کردیا اور دو کو مکہ مکرمہ جاکر غلام کی حیثیت سے فروخت کردیا۔
اسی طرح بنی عامر کے سردار کی خواہش پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دینی تعلیم کے لیے ستر صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت کو بھیج دیا مگر انہوں نے بھی ان تمام جان نثاران مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شدید اذیتیں دے کر شہید کردیا۔ یہاں تک کہ بنو نضیر (یہودی قبیلہ) نے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید کرنے کی سازش تیار کرلی تھی جو کھل کر سامنے آگئی تھی اور اللہ کی مدد سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر طرح محفوظ رہے لیکن مسلسل سازشوں اور غداریوں کی وجہ سے یہودی قبیلہ بنو نضیر کو میثاق مدینہ کی کھلی خلاف ورزیوں پر مدینہ منورہ سے نکال دیا گیا اور یہ لوگ خیبر کے علاقے میں جا کر آباد ہوگئے۔ یہ ان یہودیوں کی اتنی بڑی شکست تھی جس کو وہ برداشت نہ کرسکے اور انہوں نے پورے جزیرۃ العرب میں ہر طرف اپنی سازشوں کے جال پھیلا دئیے کیونکہ مسلمانوں سے انتقام لینے کے جذبے نے انہیں پاگل بنادیا تھا۔ وہ ایک سازش تیار کر کے مکہ مکرمہ کے سرداروں کے پاس پہنچ گئے اور ان کو اس بات پر اکسایا کہ وہ پوری طاقت وقوت سے مدینہ منورہ کی اس چھوٹی سے ریاست کو پوری طرح تباہ کردیں تاکہ بقول ان کے یہ فتنہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ مکہ مکرمہ کے لوگ بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ وہ تنہا صحابہ کرام (رض) کا مقابلہ نہیں کرسکتے لہٰذا کفار مکہ اور بنو نضیر نے بیت اللہ میں جا کر مکمل اتحاد کی قسمیں کھا کر فتح کی دعائیں کیں۔ اس کے بعد بنو نضیر کے یہ سازشی لوگ قبیلہ بنو غطفان کے پاس پہنچ گئے جو نہایت بہادر اور جنگ جو لوگ تھے ان سے کہا کہ مکہ کے لوگ اس پر تیار ہوگئے ہیں کہ ہم سب مل کر مدینہ پر حملہ کردیں تو اتنی بڑی فوج کا مقابلہ فقروفاقہ اور تنگ حلیوں میں زندگی گذارنے والے صحابہ کرام (رض) نہ کرسکیں گے۔
جب یہودیوں نے یہ محسوس کیا کہ بنو غطفان پوری طرح تیار نہیں ہو رہے ہیں تو انہوں نے ایک زبردست لالچ یہ دیا کہ اگر بنو غطفان اس جنگ میں ہمارا ساتھ دیں گے تو اس سال خیبر میں ان کی جتنی بھی فصل ہوگی وہ ان کو دے دی جائے گی۔ بنو غطفان نے اس لالچ میں آکر اس جنگ میں حصہ لینے کی حامی بھرلی اور انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی پوری طاقت وقوت سے اس جنگ میں حصہ لیں گے۔ بنو نضیر کے لوگ اسی طرح عرب کے تمام قبائل کے سرداروں سے ملے اور ان کو مسلمانوں کے خطرے سے ڈرا کر ایک متحدہ محاذ بنانے پر آمادہ کرلیا اور پروگرام یہ بنایا گیا کہ جیسے ہی قریش روانہ ہوں گے تو ہر طرف سے فوجیں روانہ ہوجائیں گی اور مدینہ منورہ کو چاروں طرف سے گھیر کر مدینہ پر چڑھائی کردی جائے گی اور اس طرح ایک یا دو دن میں مدینہ منورہ کی ریاست کو ختم کر کے اس پر قبضہ کرلیا جائے گا۔
بنو نضیر نے تمام اتحادی فوجوں کو اس بات کا یقین دلادیا کہ وہ جیسے ہی مدینہ پر باہر سے حملہ کریں گے تو فوراً ہی یہودی قبیلہ بنو قریظہ اندر سے حملہ کر دے گا اس طرح مسلمانوں کو کہیں بھی پناہ نہ مل سکے گی۔ جیسے ہی قریش نے مکہ سے پوری تیاری کر کے مدینہ کی طرف رخ کیا تو تمام آس پاس کے قبائل ان کے ساتھ ملتے گئے اور بارہ پندرہ ہزارکا یہ اتحادی لشکر مدینہ منورہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے نہایت مخر و غرور کے ساتھ گاتا بجاتا اور شراب کے جام لنڈھا تا مدینہ منورہ کی طرف چل پڑا۔ ادھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے کفارعرب کی ایک ایک نقل و حرکت کی اطلاع مل رہی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوگیا تھا کہ پورا عرب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کھڑا ہوگیا ہے اور اس کی فوجوں نے پیش قدمی بھی شروع کردی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام حالات سے مطلع کرنے کے لیے صحابہ کرام (رض) کو بلا کر عرب کے قبائل اور یہودی سازشوں کی تفصیل ارشاد فرمائی تاکہ ہر شخص ذہنی طور پر اتنے شدید حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔
تین ہزار جانثاروں نے کفار کے اس حملہ کا مقابلہ کرنے کا عزم کرلیا۔ مشورے کے دوران حضرت سلمان فارسی (رض) نے عرض کیا یا رسول للہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ہاں ایک طریقہ یہ ہے کہ جنگ میں اپنی حفاظت کے لیے خندقیں کھود لیتے ہیں تاکہ دشمن ایک دم حملہ کر کے شدید نقصان نہ پہنچا سکے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اس تجویز کو بہت پسند کیا اور فرمایا کہ مدینہ کے ان اطراف میں خندقیں کھودی جائیں جہاں سے کفار کے اندر آنے کا اندیشہ تھا۔ چناچہ تین ہزار صحابہ کرام (رض) (رض) نے تمام حالات کا جائزہ لے کر اور پروگرام بنا کر خندقوں کی کھدائی شروع کردی اور شمالی غربی رخ پر کوہ سلع کو پشت پر لے کر چھ دن اور چھ راتوں میں اتنی زبردست خندقیں کھو دلی گئیں کہ جس سے دشمن آپ پر ایک دم حملہ نہ کرسکے۔ آپ نے ان خندقوں پر تیرانداز بٹھا دئیے تاکہ جو بھی اس خندق کو پار کرنے کی کوشش کرے اس پر تیروں کی بارش کردی جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بقیہ صحابہ کرام (رض) کو خندق کے آس باس متعین کردیا صحابہ کرام (رض) مورچہ بند ہونے کے بعد کفار سے مقابلہ کرلیے تیار ہوگئے۔
(سورۃ الاحزاب میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کثرت سے درودوسلام بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت اور ان کی اطاعت ہی سے دنیا و آخرت کی تمام کامیابیاں وابستہ ہیں۔ )
جب کفار کی یہ اتحادی فوجیں مدینہ منورہ کے قریب پہنچیں تو خندقوں کو دیکھ کر حیرت میں رہ گئیں کیونکہ وہ اس طریقہ جنگ سے ناواقف تھیں۔ بہر حال کفار کی اتحادی فوجوں نے خندق کے چاروں طرف پڑائو ڈال دیا اسی دوران کچھ لوگوں نے خندق کو پار کرنے کی کوشش کی مگر ان کو صحابہ کرام (رض) نے تیر برسا کر پیچھے بھاگ جانے پر مجبور کردیا۔ پھر کفار عرب نے یہ سازش تیار کی کہ کسی طرح مدینہ کے اندر رہنے والے (خاص طور پر یہودی قبیلے) مسلمانوں پر حملہ کردیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جیسے ہی معلوم ہوا آپ نے صورت حال معلوم کرنے کے لیے چند صحابہ کرام (رض) کو بھیجا جنہوں نے بڑی خاموشی سے آکر بتادیا کہ واقعی نبو قریظہ بغاوت پر آمادہ ہیں اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ تحقیقات بڑی خاموشی سے کرائی تھیں مگر کسی طرح منافقین تک یہ بات پہنچ گئی کہ ان کے بال بچوں کو شدید خطرات لا حق ہوچکے ہیں۔ منافقین نے میدان چھوڑ کر بھاگنے کے بہانے بناناشروع کردیئے تاکہ کسی طرح ان کو مدینہ واپس جانے کی اجازت دے دی جائے۔
غزوہ خندق کے موقع پر کفار کے حملے سے بھی زیادہ یہ خبر بڑی دل دہلا دینے والی تھی کہ بنو قریظہ کے گھروں کے پاس مسلمان بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو محفوظ مقام سمجھ کر رکھا گیا تھا لیکن بنو قریظہ کی بد نیتی نے مخلص صحابہ کرام (رض) کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا البتہ سچے اور مخلص اہل ایمان نے طے کرلیا تھا کہ آج ہمارا سب کچھ قربان ہوجائے مگر اسلام کی آبروبچ جائے تو وہ ان کے بال بچوں سے زیادہ اہم ہے۔ صحابہ کرام (رض) کا یہ عزم، حوصلہ، ولولہ اور جانثاری کا جذبہ اللہ کے ہاں قبول ہوگیا اور کفار کی تمام شازشیں نا کام ہوگئیں۔ اللہ نے اہل ایمان کی یہ مدد فرمائی کہ کفار کی صفوں میں زبردست پھوٹ پڑگئی اور دوسری طرف سمندر کی جانب سے ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہوئیں ہوا کا ایک زبردست طوفان تھا جس میں سردی، کڑک، چمک اور اندھیرا تھا کہ کسی کو کچھ نظر نہ آتا تھا۔ دشمنوں کے خیمے الٹ گئے، چیزیں چاروں طرف بکھر گئیں اور سردی سے وہ لوگ بےحال ہوگئے۔ کفار عرب جو یہ سوچ کر آئے تھے کہ ایک دودن میں معاملہ ختم ہوجائے گا اور ہم کامیاب و بامراد ہو کر لوٹیں گے اتنے عرصہ کے محاصرے اور موسم کی شدت اور آپس کی پھوٹ نے ان میں ایک ایسی افراتفری پھیلا دی کہ وہ دل برداشتہ ہو کر راتوں رات میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ صبح دیکھاتو پورا میدان دشمنوں سے خالی تھا۔ مسلمانوں میں کفار کی اس پسپائی اور شکست سے خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اب قریش تم پر کبھی چڑھائی نہ کرسکیں گے۔
جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطمینان ہوگیا کہ ” اتحادی فوجیں “ میدان چھوڑ کر بھاگ چکی ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منورہ واپس جانے کا فیصلہ فرمایا۔ یہ کفار کی اتنی زبردست شکست اور ذلت تھی اور مسلمانوں کی وہ عظیم فتح تھی جس کے بعد مسلمانوں کے قدم آگے ہی بڑھتے چلے گئے اور پھر دنیا کی سپرپ اورز (Super Powers ) بھی ان کا راستہ نہ روک سکیں بلکہ صرف اسلام اور مسلمان ہی ساری دنیا کے حکمران بن گئے۔
یہ مسلمانوں کے لیے زبردست خوشی کا موقع بھی تھا مگر ان کی زبانوں پر سوائے شکر کے جذبات کے اور دوسرے الفاظ نہ تھے۔ کفار اپنی خوشی اور مسرت کا اظہار ناچ گانے اور فضول ہنگاموں سے کرتے ہیں لیکن اہل ایمان ان باتوں کو خلاف اسلام اور ناجائز حرکت سمجھ کر کبھی اس طرف قدم نہیں بڑھاتے ۔ ہم کیسے بد قسمت دور میں ہیں کہ جہاں ہمارے مسلمان بھائی اپنی خوشی و مسرت کا اظہار کفار کے طریقوں کو اپنا کر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان جہالتوں اور فضول حرکتوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین
غزوہ خندق کی صعوبتوں اور شدید پر یشانیوں سے تھکے ماندے مسلمان جب مدینہ منورہ پہنچ گئے تو حضرت جبرئیل امین نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آکر کہا کہ ابھی ہتھیار نہ کھولے جائیں کیونکہ بنو قریظہ کی غداریوں سے نبٹنے کا مسئلہ درپیش ہے ان سے اسی وقت نبٹ لیا جائے چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمادیا کہ کوئی شخص اس وقت تک عصر کی نماز نہ پڑھے جب تک وہ نبوقریظہ کے قبیلے تک نہ پہنچ جائے۔ چناچہ تمام صحابہ کرام (رض) نے اپنے ہتھیار کھولے بغیر اور عصر کی نماز کے وقت اچانک نبو قریظہ کا محاصرہ کرلیا۔ بنو قریظہ قلعہ بند ہو کر لڑنے پر آمادہ ہوگئے لیکن صحابہ کرام (رض) کے عزم و ہمت کو دیکھ کر وہ ڈرگئے۔ تین ہفتے کے شدید گھیرائو کے بعد بنو قریظہ سمجھ گئے کہ وہ اہل ایمان کا مقابلہ نہیں کرسکتے وہ بوکھلا اٹھے اور اس شرط پر صلح پر آمادہ ہوگئے کہ قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد ابن معاذ (رض) ان کے حق میں جو فیصلہ کریں گے وہ اس کو مان لیں گے۔ حضرت سعد (رض) نے تمام حالات کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کیا کہ بنو قریظہ کے تمام مرد قتل کردیئے جائیں، ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے اور ان کی تمام جائیدادیں وغیرہ مسلمانوں میں تقسیم کردی جائیں۔ اس فیصلے پر اسی وقت عمل ہوا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ، تمام عرب قبائل اور سازشی یہودیوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا اور جزیرۃ العرب سے ان کا زور ہمیشہ کے لیے توڑ دیا گیا۔
یہ تو جنگی حالات تھے جن میں اہل ایمان نے زبردست فتح و نصرت حاصل کرلی تھی لیکن مسلمانوں کے اخلاق و کردار کی اصلاح کا کام بھی جاری تھا۔ عرب معاشرہ میں سب سے کم تر حیثیت غلاموں کی تھی جن کے نہ تو انسانی حقوق تھے اور نہ ان کو زندگی کی سہولتیں حاصل تھیں۔ غلام اور آقا کا فرق اتنا زبردست تھا کہ کوئی آزاد قبیلہ اپنی بیٹی کسی غلام یا آزاد کردہ غلام کو دینے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس چھوٹے بڑے اور آقا و غلام کے فرق کو مٹانے کے لیے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب (رض) کا نکاح حضرت زید ابن حارثہ (رض) سے کرنا چاہا تو اس سے پورے بنو قریش میں ایک ہنگامہ مچ گیا کیونکہ وہ اس کے لیے قطعاً تیار نہ تھے کہ کسی آزاد کردہ غلام کا نکاح بنو قریش جیسے معزز خاندان کی کسی لڑکی سے کردیا جائے۔ مگر اللہ و رسول کا حکم آنے کے بعد کسی نے اس حکم سے سرتابی نہیں کی اور حضرت زینب (رض) کا نکاح حضرت زید ابن حارثہ (رض) سے کردیا گیا۔ مزاجوں میں ہم آہنگی نہ ہونے کہ وجہ سے دونوں میں اختلافات پیدا ہونا شروع ہوگئے جھگڑے بڑھتے بڑھتے طلاق تک نوبت پہنچ گئی اور ایک دن انہوں نے حضرت زینب (رض) کو طلاق دے دی۔
طلاق کا یہ واقعہ نکاح سے بھی زیادہ ہیبت ناک بن گیا اور قریش اس کو پنی توہین سمجھنے لگے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رنج و غم اور افسوس سے نکالنے کے لیے اللہ کے حکم سے عدت گذرنے کے بعد حضرت زینب (رض) سے نکاح کرلیا تاکہ قریش جس بات کو اپنی توہین سمجھ رہے تھے وہ اس نکاح کے ذریعہ دور ہوجائے۔ لیکن منافقین اور کفار کو ایک اور پروپیگنڈے کا موقع مل گیا کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجرت زید (رض) کو اپنا بیٹا بنا رکھا تھا اور اس دور کے دستور کے مطابق متبنیٰ یعنی بنایا ہوا بیٹا سگے بیٹوں کی طرح ہوتا تھا جو وراثت تک میں شریک سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے کہنا شروع کیا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بیٹے کی مطلقہ بیوی یعنی اپنی بہو سے نکاح کرلیا۔ اس پر اللہ کی طرف سے صاف صاف حکم آگیا کہ سگا اور حقیقی بیٹا صرف وہی ہوتا ہے جو انسان کے صلب یعنی پیٹھ سے پیدا ہوتا ہے ۔ اگر کسی کو بیٹا بنا لیا جائے تو وہ حقیقی بیٹا نہیں ہوتا۔ اس طرح اللہ نے آقا و غلام ہی کا فرق نہیں مٹایا بلکہ کفار کی اس بری رسم کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا کہ بنایا ہوا بیٹا حقیقی بیٹا ہوتا ہے۔
(١) مدینہ منورہ پر اتحدی فوجوں کا حملہ۔ (٢) بنوقریظہ کو ان کی غداری پر سخت سزا۔ (٣) اور حجرت زینب (رض) سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح۔
یہی تینوں اہم مسائل تھے جن کو سورٰ الاحزاب میں تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے۔ ان کے علاوہ چند اور ضروری مسائل کو بھی بیان کیا گیا ہے مثلاً
* اسی دوران پردے کے احکامات کو نازک کیا گیا اور حکم دیا گیا کہ عورتیں بغیر کسی شدید ضرورت کے گھروں سے باہر نہ نکلیں اور جب نکلیں تو اپنے آپ کو اچھی طرح ڈھانپ کر نکلیں۔
* اگر کسی کو ازواج مطہرات سے کچھ پوچھنا ہو تو وہ پردے کے پیچھے سے پوچھے۔ اس حکم کے آنے کے بعد امہات المومنین نے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا لیے۔ چونکہ امہات المومنین کی زندگی بھی ایک بےمثال نمونہ عمل تھی اس لیے تمام اہل ایمان کی خواتین نے اپنے گھروں پر پردے ڈال لیے اور جب وہ باہر نکلتیں تو اپنے آپ کو اس طرح ڈھانپ کر نکلتی تھیں کہ ان کے جسم کا کوئی حصہ نمایاں یا ظاہر نہیں ہوتا تھا۔
* اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کو امت کی مائیں قرار دے کر ان کے ادب و احترام کا حکم دیا جس سے ان کی عزت و سر بلندی میں چار چاند لگ گئے۔
* اللہ تعالیٰ نے سورة الاحزاب میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان و عظمت، آپ کی خدمت میں حاضری کے اوقات اور بات کرنے کے آداب بیان فرمائے۔
* مومنوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کثرت سے درودوسلام بھیجیں تاکہ ان کی دنیا اور آخرت سنور جائے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درودوسلام بھیجنے کا طریقہ بھی متعین فرمادیا اور وہ یہ ہے کہ ہر نماز کی آخری رکعت میں بیٹھ کر سلام اور درود شریف پڑھا جائے۔ البتہ اگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روضہ مبارک پر حاضری نصیب ہو تو کھڑے ہو کر سلام پڑھا جائے۔ گویا جہاں جیسا حکم ہے اس پر اسی طرح عمل کیا جائے اپنی طرف سے کوئی طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔ ان تمام مذکورہ مسائل کی تفصیل انشاء اللہ سورة الاحزاب کی تشریح میں بیان کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں اپنے محبوب رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت و اطاعت کا عظیم جذبہ عطا فرمائے اور ہمیں امہات المومنین اور صحابہ کرام (رض) جیسی پاکیزہ اور کامیاب زندگی نصیب فرمائے۔ (آمین)