بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ فاطر - تعارف
تعارف
سورة نمبر ٣٥۔ کل رکوع ٥۔ آیات ٤٥۔ الفاظ وکلمات ٧٩٢۔ حروف ٣٢٨٩۔ مقام نزول مکہ مکرمہ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار فرماتے ہوئے کہا، کہ ایک ہی جگہ اور ایک ہی زمین کے اندر سے پانی کے ایسے چشمے بہا دیے ہیں کہ جن میں کوئی میٹھا اور پسندیدہ پانی ہے، اور کوئی کڑوا ہی کیوں نہ ہو اس میں پیدا ہونے والی مچھلیوں میں پانی کی کرواہٹ نہیں ہوتی، جب مچھلی پکا کر کھائی جائے، تو اسپر نمک لگا کر کھایاجاتا ہے، نہ صرف اللہ کی قدرت ہے، کہ اس نے ہر چیز کی تاثیر کو اپنے قبضے میں رکھا ہے، وہی ہر چیز میں تاثیر پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا کہ زمین ، آسمان اور فرشتوں کا خالق ومالک اللہ ہی ہے ۔ وہ جس پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے تو کسی کو یہ جرأت و طاقت نہیں کہ اس کو روک سکے اور جس وہ اپنی رحمتوں اور کرم کے دروازے بند کر دے اس کو کوئی کھلوانے والا نہیں ہے۔ ٭ انسان پر اللہ نے ہزاروں نعمتیں نازل فرمائی ہیں ان کا یہ حق ہے کہ وہ اللہ کی ہر نعمت پر اس کا شکر ادا کرتا رہے کیونکہ اللہ کو بندے کا جذبہ شکر بہت پسند ہے ، شکر سے نعمتوں میں اضافہ اور ترقی نصیب ہوتی ہے صرف ایک اللہ ہی شکر کا حق دار ہے۔ ٭نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جا نثاروں کو یہ کہہ کر تسلی دی گئی ہے کہ اگر یہ کفار و مشرکین اور بت پرست اللہ کے نبی اور اس کی آیات کو جھٹلا رہے ہیں تو یہ کوئی ایسی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے کیونکہ ہر دور میں جب بھی انبیاء کرام (علیہ السلام) نے دنیا کے لالچ میں ڈوبے ہوئے رسم پرستوں اور بت پرستوں کو اللہ کے دین کی طرف بلایا تو انہوں نے نہ صرف اس کا انکار کیا بلکہ شدید مزاحمت بھی کی ۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) نے ہر طرح کے مصائب پر صبر کیا جس پر انہوں نے ان کی امتوں کو دنیا اور آخرت کی خیر ، بھلائی اور نعمتوں سے نوازا گیا ۔ ٭کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے اس کا فیصلہ انسان نہیں کرسکتا ، ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی ایک بات کو بہت پسند کرتا ہو مگر وہی بات اللہ کو ناپسند ہو تو اس بات کا فیصلہ دنیا میں اللہ کا کلام کر دے گا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ خود فرما دیں گے کہ ان کو انسانوں کے کون کون سے اعمال پسند یا ناپسند تھے۔ ٭حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کے ذریعہ نسل انسانی کی ابتداء ہوئی ، ان لوگوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام نازل فرمایا اور لوگوں کی اصلاح کے لئے انبیاء کرام (علیہ السلام) جیسے منتخب بندوں کو بھیجا ۔ یہاں تک کہ اللہ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیج کر سلسلہ نبوت کو مکمل فرمایا ۔ (اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک ہی جگہ اور ایک ہی زمین کے اندر سے پانی کے ایسے چشمے بہا دیئے ہیں کہ جن میں کوئی میٹھا اور پسندیدہ پانی ہے اور کوئی کڑوا ، کسیلا ، کھارا اور نمکین پانی ہے اگرچہ پانی کڑوا ہی کیوں نہ ہو اس میں پیدا ہونے والی مچھلیوں میں پانی کی کوئی کڑواہٹ نہیں ہوتی بلکہ جب مچھلی پکا کر کھائی جاتی ہے تو اس پر نمک چھڑک کر کھاتا جاتا ہے۔ نہ صرف اللہ کی قدرت ہے کہ اس نے ہر چیز کی تاثیر کو اپنے قبضے میں رکھا ہوا ہے ، وہی ہر چیز میں تاثیر پیدا کرتا ہے۔ فرمایا کہ یہ لوگ جو کتاب الٰہی کو پڑھ کر اس کے مطابق ایمان اور عمل صالح کا پیکر بن جاتے ہیں ، نمازوں کا اہتمام اور اللہ کے بندوں پر مال خرچ کرتے ہیں وہ در حقیقت ایسی تجارت کر رہے ہیں جس میں کسی نقصان کا اندیشہ یا خوف نہیں ہے۔ ) اب صرف نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرمانبرداری ہی انسانوں کی کامیابی کی ضمانت ہے جو بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کے ڈگر سے ہٹے گا وہ راہ ہدایت سے بھٹک جائے گا اور جو ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرے گا دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں اور نجات اس کو عطاء کی جائیں گی۔ ٭اللہ نے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک ہی جگہ اور ایک ہی زمین سے میٹھے ، کڑوے ، کھارے اور پانی کے سوتے جا ری کردیئے ہیں جو ہر ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں آپس میں نہیں ملتے ۔ اسی کڑوے اور نمکین پانی میں جب کوئی مچھلی اپنی رزق حاصل کرتی ہے تو اس میں پانی کی کوئی کڑواہٹ نہیں آتی اسی کڑوے اور کسیلے پانی میں بہترین سچے موتی اور مونگے پیدا ہوتے ہیں اور اپنی چمک دمک سے وہ لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کردیتے ہیں یہ سب اللہ کی قدرت سے ہے۔ اللہ نے دریا ، چشمے اور سمندر بنائے اس میں کشتیاں جہاز چلتے ہیں اور کنارے سے دوسرے کنارے تک لوگوں کو اور ان کی ضرورت کے سامان کو لے کر دن رات سفر کرتے ہیں ۔ ہوائیں ان جہازوں کو سہارا دیتی ہیں اس طرح ہر شخص اس کی نعمت سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ چاند ، سورج ، ستارے ، حیوانات سب اللہ نے انسان کے خادم بنا دیئے ہیں ۔ وہ اللہ کی قدرت سے انسانوں کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ فرمایا کہ آدمی یہ نہیں سوچتا کہ ان تمام چیزوں کو صرف ایک اللہ ہی نے پیدا کیا ہے وہ ان کا خالق ہے اور وہی ان سب چیزوں کا مالک ہے وہی اس نظام کائنات کو اپنے حکم سے چلا رہا ہے۔ ٭انسان ان میں سے ہر چیز کا محتاج ہے لیکن ان چیزوں کا خالق کسی کا محتاج نہیں ہے۔ ساری قدرتیں اس کے ہاتھ میں ہیں وہ اگر چاہے تو دنیا کے سارے لوگوں کو ختم کر کے ایک دوسری مخلوق کو لے آئے کوئی چیز اس کے دست قدرت سے باہر نہیں ہے بلکہ اس کے قبضے اور اختیار میں ہے۔ ٭اللہ تو اپنے بندوں پر بہت مہربان اور کرم کرنے والا ہے مگر انسان نا شکری کر کے اپنے لیے تباہی کے گڑھے اپنے ہاتھوں سے کھود لیتا ہے اور اس میں فرق نہیں کرتا کہ کون سی چیز بہتر ہے اور کون سی بدتر ۔ فرمایا کہ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔ ٭جس طرح اندھا اور آنکھوں والا ، اندھیرا اور روشنی ، دھوپ اور سایہ برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح زندہ اور مردہ بھی برابر نہیں ہو سکتے۔ یہ کفار در حقیقت اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے مردہ ہوچکے ہیں اور زندگی کے اندھیروں میں اس طرح ڈوب چکے ہیں کہ انہیں روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی ۔ ٭نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سے پہلے جتنے بھی نبی اور رسول آئے ان کو واضح دلائل ، کھلے معجزات ، صحیفے اور روشنی کتابیں دی گئیں لیکن کفار نے ان سب کو دیکھنے ، سمجھنے اور سننے کے باوجود انکار کردیا ۔ ان کو مہلت بھی دی گئی لیکن جب وہ حد سے گزر گئے تو ان پر اللہ کا قہر نازل ہو کر رہا ۔ ٭اللہ نے ایسا انتظام کردیا ہے کہ آسمانی بلندیوں سے پانی برستا ہے جس سے مختلف قسم کے پھل ، پھول ، سبزی ، ترکاری اور میوے نکلتے ہیں ۔ اسی طرح پہاڑوں کے رنگ بھی مختلف ہیں کوئی سفید کوئی سیاہ کوئی سرخ اور کوئی زرد رنگ کا ہوتا ہے۔ جانوروں میں بھی مختلف رنگ روپے ہوتے ہیں ان سب چیزوں کو سوائے اللہ کے اور کس نے پیدا کیا ؟ یہ سب اسی کی قدرت کے شاہکار ہیں ۔ منکرین کو اللہ سے ڈرنا اور توبہ کرنا چاہیے لیکن اللہ سے وہی ڈرتے ہیں جو علم و فہم رکھنے والے ہیں جو ہر سچائی سے منہ پھیر کر چلنے کو اپنی شان سمجھتے ہیں وہ کبھی اس سچائی کو قبول نہ کریں گے ۔ ٭جو لوگ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتاب کو پڑھ کر اس کے مطابق ایمان و عمل صالح اختیار کرتے ہیں ، اپنی عبادات میں خاص طور پر نمازوں کا اہتمام اور ادائیگی کرتے ہیں اور مالی عبادت میں وہ کھل کھلایا چھپ کر اپنا مال خرچ کرتے ہیں وہ در حقیقت ایسی تجارت کر رہے ہیں جس میں نقصان کا کوئی اندیشہ یا خوف نہیں ہے۔ اس پر انہیں اتنا عظیم صلہ اور بدلہ ملے گا جس کا وہ اس دنیا میں تصور میں بھی نہیں کرسکتے لیکن جو کفر پر جمے بیٹھے ہیں ان کے لیے جہنم کی آگ تیار کی گئی ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ اس میں جانے کے بعد روئیں گے ، فریاد کریں گے ، جلائیں گے مگر یہ سب چیزیں ان کے کام نہ آسکیں گی۔ ٭اللہ ہی ہر غیب اور چھپے ہوئے کا جاننے والا اور دلوں کے بھید سے واقف ہے۔ وہ ہر شخص کو ایک خاص مہلت دیتا ہے تا کہ وہ اچھی طرح سوچ کر اپنے حق میں بہتر فیصلہ کرے۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ وہ ہر شخص کو اس کے ہر عمل پر اسی وقت سزا نہیں دیتا بلکہ اس کو پھر ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے لیکن وہ ڈینگیں مارنے والے بد قسمت اپنے گناہوں پر شرمندہ نہیں ہوتے اس لیے مدت گزرنے کے بعدان کو سخت سزا دی جاتی ہے جو دوسروں کے لیے بھی عبرت و نصیحت بن جاتے ہیں۔
Top