بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ يس - تعارف
تعارف
تعارف سورة یٰسین۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورة یا سین کے مضامین کا خلاصہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی قسم کھا کر تصدیق فرما دی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں اور صراط مستقیم پر قائم ہیں۔ قرآن کریم کے متعلق فرمایا کہ اس کے نازل کئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ ان لوگوں کو ان کے برے اعمال کے برے نتائج سے آگاہ کردیا جائے جو کفر و شرک اور اللہ کی نافرمانی میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایسے نافرمانوں کو ڈرانا یا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں آپ ان کی نا فرمانیوں ، ضد اور ہٹ دھرمی کی پروانہ کیجئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا مقصد زندگی بیان کرتے جایئے جو بھی اس پر ایمان لا کر عمل صالح کرے گا اس کو آخرت میں اجر عظیم عطاء کیا جائے گا اور منکرین جہنم کا ایندھن بن جائیں گے۔ (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس مرنے والے کے پاس سورة یا سین کو پڑھا جاتا ہے تو اس کے لئے اس کی موت آسان ہوجاتی ہے۔ ( ویلمی ، ابن حیان) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ کفار و مشرکین جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دین کی سچائیوں کو قبول کرنے سے گریز کر رہے ہیں ان کو سمجھاتے رہیے۔ یہی تمام نبیوں اور رسولوں کا طریقہ رہا ہے ، چناچہ اللہ نے مثال کے طور پر ایک بستی کے نافرمانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب اس بستی میں آباد قوم نے کفر اور نا فرمانیوں کی انتہاء کردی تب اللہ نے ان کی اصلاح کے لیے دوپیغمبروں کو بھیجا جنہوں نے ان کو ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی ضدر پر اڑے رہے ۔ اسی دوران اللہ نے ان دونوں پیغمبروں کی حمایت و تصدیق کرنے کے لئے ایک اور پیغمبر کو بھیجا مگر نافرمان قوم نے ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ تم تو ہم جیسے ہی آدمی ہو آخر تمہارے اندر وہ کون سی خصوصیت ہے جس کی بناء پر ہم تمہیں اللہ کا پیغمبر سمجھ لیں ۔ ان تمام پیغمبروں نے کہا کہ ہم جھوٹے نہیں ہیں بلکہ رب العالمین کی طرف سے بھیجے گئے ہیں ۔ کفار و منکرین نے اپنی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب سے تم نے یہ وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع کیا ہے ہمارے گھروں اور خاندانوں میں ہر طرف نحوست پھیل گئی ہے۔ ہم بڑے سکون سے رہتے تھے مگر تمہاری باتوں کی وجہ سے ہمارے درمیان شدید اختلاف پیدا ہوگئے ہیں ۔ اگر تم اپنی ان نصیحتوں سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کردیں گے۔ وہ بستی والے ایمان لانے کے بجائے ان پیغمبروں کے دشمن بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس بستی کے آخری کنارے پر ایک نیک آدمی رہتا تھا اس نے ان پیغمبروں کی بات کو سن کر قبول کیا ۔ جب اس نے یہ سنا کہ اس کی قوم اللہ کے پیغمبروں کو جھٹلا رہی ہے اور ہر طرح کی دھمکیاں دے رہی ہے تو وہ بڑی تیزی سے جوش اور اسلامی جذبے سے سرشار ہو کر بستی والوں کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے میری قوم اللہ کے پیغمبروں کا کہا مانو ان کی اتباع و پیروی کرو اور ان سے منہ نہ موڑو ۔ یہ تمہاری بھلائی کے علاوہ تم سے کوئی معاوضہ اور بدلہ تو نہیں مانگ رہے ہیں ۔ اس نیک آدمی نے کہا کہ میں اپنے باپ دادا کے دین و مذہب کو چھوڑ کر اگر اللہ کی عبادت و بندگی نہ کروں جس نے اس ساری کائنات کو پیدا کیا ہے تو میری طرف سے یہ سراسر زیادتی اور ظلم ہوگا ۔ میں تو ایک اللہ کی بندگی کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ تم بھی اسی راستے پر چلو۔ جب قوم کے لوگوں نے اس نیک آدمی کی تقریر سنی تو وہ اس کو برداشت نہ کرسکے ۔ جوش میں آ کر چاروں طرف سے اس پر لاتوں گھونسوں کی بارش کردی اور اسے مار مار کر شہید کردیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب اس شہید کو جنت کی راحتیں عطاء کی گئیں اور اس نے عزت کا اعلیٰ ترین مقام دیکھا تو کہنے لگا کہ کاش میری قوم اس بات کو جان لیتی کہ مجھے رب العالمین نے دین اسلام کی برکت سے کتنا زبردست اعزازو اکرام عطاء فرمایا ہے۔ (قرآن کریم میں جتنی باتیں اور احکامات نازل کیے گئے ہیں وہ نہایت متانت ، سنجیدگی اور وقار کا تقاضا کرتے ہیں ، لہٰذا وہ لوگ جنہوں نے دنیا کی چمک دمک اور رونقوں میں مبتلا ہو کر آخرت کی زندگی کو بھلا دیا ہے اور اپنی زندگیوں کو کھیل کود بنا لیا ہے ان کے مزاج اس طرح الٹ دیئے گئے ہیں کہ انہوں نے ہر سچی بات کو جھٹلانا اپنا مزاج بنا لیا ہے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ایسے لوگوں کی پروانہ کیجئے اور اپنا نیک مشن اور مقصد جاری رکھیے اور ان بدکرداروں کو سچائی کا شعور ، صراط مستقیم کی تڑپ اور اللہ کے سامنے حاضری کا احساس دلاتے رہیے۔ حق و صداقت کی آواز پر تو صرف سعادت مند اور خوش نصیب لوگ ہی دوڑتے ہوئے آتے ہیں۔ ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاں یہ پیغمبر اللہ کا پیغام پہنچانے آئے تھے جب منکرین نے نا فرمانیوں کی انتہاء کردی تو پھر اس قوم پر عذاب آگیا ۔ ایک زبردست چنگھاڑ سنائی دی اور وہ سب کے سب وہیں ڈھیر ہو کر رہ گئے۔ اس وقت نہ ان کے معبود ان کے کام آئے اور نہ ان کی مالت و دولت ان کو سہارا دے سکی ۔ فرمایا کہ اگر یہ لوگ نافرمانی نہ کرتے اور ان انبیاء کرام کو نہ جھٹلاتے تو اس طرح صفحہ ہستی سے نہ مٹ جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بیشمار نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم نے کبھی اس بات پر غور و فکر کیا ہے کہ چاند ، سورج ، ستارے تمہارے سامنے جگمگا رہے ہیں ۔ دن اور رات آتے اور جاتے ہیں مگر انہیں کون کنٹرول کر رہا ہے کس کے حکم سے یہ چل رہے ہیں یقینا ہر شخص کا ضمیر کہہ اٹھے گا کہ صرف ایک اللہ کی ذات ہے جو کائنات کی ہر چیز کے نظام کو چلا رہی ہے۔ فرمایا کہ تم سمندروں کو دیکھتے ہو کہ اس میں جہاز اور کشتیاں چل رہی ہیں ۔ اپنی زندگی گزارنے کے سامنا ادھر سے ادھر لے کر جاتے ہو ۔ انسان کو یہ طاقت اور صلاحیت کس نے عطاء کی ہے۔ تم بھی عجیب ہو کہ دن رات اس کی نشانیوں اور انقلابات کو دیکھ کر بھی یہ جاہلانہ مطالبہ کرتے ہو کہ جس عذاب سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے اس کو آنا ہے تو آجائے یعنی ان کا گمان تھا کہ اگر عذاب ہم پر آئے گا تو ہمارے جھوٹے معبود ہمیں بچا لیں گے۔ فرمایا کہ یاد رکھو جب اللہ کا عذاب آجائے گا تو پھر کسی کو ایک لمحہ کی مہلت بھی نہ دی جائے گی۔ اگر وہ بازاروں میں ہوگا تو اس کو گھر والوں تک پہنچنے کا موقع بھی نہ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سب کے سب زندہ ہو کر بد حواسی میں ادھر ادھر دوڑتے ہوئے رب العالمین تک پہنچ جائیں گے اور کہیں گے کہ ہائے ! ہماری بد نصیبی کہ ہم اس عذاب کے مقابلے میں اپنی قبروں میں زیادہ آرام سے تھے نہ جانے ہمیں کس نے ہماری قبروں سے اٹھادیا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ یہی وہ قیامت کا دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا اور ہمارے پیغمبروں نے جو کچھ کہا تھا وہ بالکل حق اور سچ تھا ۔ جن لوگوں نے نیک اعمال کیے ہوں گے ان کو جنت کی راحتیں دی جائیں گی جن میں وہ خوش و خرم اور عیش و عشرت کی زندگی گزاریں گے۔ انہیں ہر طرح کی نعمتیں حاصل ہوں گی اور وہ جو بھی نعمت کی تمنا کریں گے وہ فوراً ان کے سامنے پیش کردی جائے گی ۔ انہیں وہاں دیدار الٰہی نصیب ہوگا ۔ اللہ کی طرف سے ان پر سلام آئے گا ۔ اس کے بر خلاف مجرمین کو اہل ایمان سے الگ کردیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ اب جہنم کی آگ ہی میں رہو جنت کی راحتیں تم پر حرام ہیں ۔ وہ جھوٹ بولتے ہوئے کہیں گے کہ الٰہی ہم پر جو الزامات ہیں وہ کام ہم نے نہیں کیے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں ، پاؤں اور کھالوں تک کو زبان دے دے گا اور وہ ان کے ہر گناہ پر گواہی دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آخر میں فرمایا کہ جس طرح گزشتہ قوموں نے اپنے نبیوں کو جھٹلایا اور طرح طرح کی باتیں کیں اسی طرح جب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو قرآنی آیات سناتے تو کہتے کہ یہ تو کوئی شاعر ہیں ۔ اللہ نے فرمایا یہ لوگ کس قدر بد نصیب ہیں کہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت و بندگی شروع کردی اور اپنے خالق ومالک اللہ کو بھول گئے کہنے لگے کہ جب ہم ہڈیاں ہوجائیں گے تو دوبارہ پیدا ہو سکتے ہیں ؟ اللہ نے فرمایا کہ جس طرح اس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے جو اللہ سبز درختوں سے آگ کو پیدا کرسکتا ہے وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔
Top