بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ الزمر - تعارف
تعارف
تعارف سورة الزمر۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ٭سورۃ الزمر ہجرت حبشہ سے پہلے مکہ مکرمہ میں نازل کی گئی ۔ ٭ یہ سورت مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل کی گئی جب کفار مکہ کے ظلم و زیادتی اور تشدد کی انتہاء ہوچکی تھی ۔ اہل ایمان پر چاروں طرف سے ہر طرح کے حملے کئے جا رہے تھے یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت سے بعض صحابہ کرام (رض) بیت اللہ کی سر زمین چھوڑ کر ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔ انہوں نے ہجرت اپنی جان کی حفاظت کے لئے نہیں بلکہ ایمان کی حفاظت کے لئے کی تھی۔ (یہ سورة مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل کی گئی جب کفار و مشرکین نے تشدد اور ظلم و زیادتی کی انتہاء کردی تھی ۔ اہل ایمان اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے مکہ کی سر زمین چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے اور انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت سے حبشہ کی طرف ہجرت کرنا شروع کردی تھی) ۔ ٭ اس سورة میں قریش مکہ سے کہا گیا ہے کہ وہ گزری ہوئی قوموں کے حالات سے عبرت و نصیحت حاصل کریں اور نقصان پہنچنے سے پہلے ایمان لا کر اپنی اصلاح کرلیں ۔ اگر یہ وقت نکل گیا تو پھر سوائے شرمندگی ، پچھتاوے اور دین و دنیا کے نقصان کے اور کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا ۔ اس سورة میں اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ وہ صبر سے کام لے کر اللہ کے دین پر مضبوطی سے جمے رہیں۔ دین و دنیا کی ساری بھلائیوں سے ان کا دامن بھر دیا جائے گا ۔ ٭نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان سے فرمایا گیا ہے کہ وہ کسی کی پرواہ نہ کریں ۔ اللہ کی عبادت و بندگی اس طرح کریں کہ اس میں کسی دوسرے کی عبادت و بندگی کا شائبہ تک نہ ہو۔ (اہل ایمان کو بتایا گیا ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کریں ، اسی سے ڈریں اور ساری دنیا سے بےپرواہ ہو کر اللہ کا دین ساری دنیا میں پھیلانے کی جدوجہد کو اور تیز تر کردیں۔ ) ٭اللہ تعالیٰ نے توحید کی حقانیت کو بیان کر کے اس کے بہتر نتائج اور شرک کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جو لوگ اپنے کفر و شرک پر جمے بیٹھے ہیں ان کے لئے یہ بہترین موقع ہے کہ اللہ کے آخری نبی و رسول حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر اور عمل صالح اختیار کر کے صراط مستقیم پر چل پڑیں۔ (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کردیں کہ کفار کا ظلم و ستم ان کو اپنے نیک مقاصد سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹا سکے گا ) ٭نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے طرز عمل سے کفار پر یہ ثابت کردیں کہ وہ کتنا بھی ظلم و تشدد کرلیں لیکن اہل ایمان ایک قدم بھی توحیدخالص سے پیچھے نہ ہٹیں گے اور جو مقصد اور مش لے کر چلے ہیں اس سے دنیا کے اندھیروں کو دور کر کے رہیں گے۔ ٭فرمایا کہ یہ کفار و مشرکین جن معبودوں پر بھروسہ کر کے ان کی عبادت و بندگی کرتے اور ان کو اپنا مشکل کشا مانتے ہیں جب وہ کسی طوفان ، مصیبت یا کسی سمندری بھنور میں پھنس جاتے ہیں تو اس وقت صرف ایک اللہ سے فریاد کرتے ہیں اور جب وہ اس مصیبت سے نکل جاتے ہیں تو پھر سے اللہ کو بھول کر اپنے کفر و شرک میں لگ جاتے ہیں۔ یہ ان کی زندگیوں کا تضاد ثابت کرتا ہے کہ ان کو بھی اپنے جھوٹے معبودوں پر کسی طرح کا اطمینان اور یقین نہیں ہے بلکہ وہ اپنے باپ دادا کی پیروی میں ان بتوں کو اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں۔ فرمایا کہ ان کفار و مشرکین میں سے وہ لوگ جن کے دل اسلام کی عظمت کے لئے کھول دیئے گئے ہیں جن کا ہر قدم اللہ کی عطاء کی ہوئی روشنی میں اٹھتا ہے وہ کامیاب و بامراد لوگ ہیں۔ ان کے بر خلاف وہ لوگ جو زندگی کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں اور کفر و شرک میں مبتلا ہونے کی وجہ سے پتھر دل ہوچکے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں نا کام ترین لوگ ہیں اور وہ ان کے برابر نہیں ہو سکتے جو نور ایمانی سے اپنے دلوں کو روشن ومنور کرچکے ہیں۔ ٭اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہر طرح کی مثالوں کو بار بار بیان کیا ہے تا کہ ہر شخص اپنی آنکھوں سے غفلت کا پردہ اتار کر مرنے سے پہلے اپنے کفر و شرک سے توبہ کرلے۔ فرمایا کہ اس کے باوجود اگر یہ کفر و شرک کی وادیوں میں بھٹکنے والے تو بہ نہیں کرتے تو اس انجام کو سامنے رکھیں کہ ان کے مال و اسباب ان کے کسی کام نہ آسکیں گے اور آخرت کے شدید نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت سے ارشاد فرمادیا ہے کہ جو لوگ تقویٰ اور پرہیز گاری کی زندگی کو اختیار کرتے ہیں اللہ خود ان کی حفاظت فرماتا ہے ، لہٰذا دین حق پر چلنے والوں کو کسی سے ڈرنے یا کسی سے دبنے کی ضرورت نہیں ہے انہیں اللہ پر مکمل بھروسہ کر کے دین اسلام کی عظمت کو ساری دنیا تک پھیلانے کی جدوجہد کو اور تیز کردینا چاہیے۔ جب اللہ خود محافظ ہے تو پھر کسی نقصان کا اندیشہ نہیں کرنا چاہیے اگر اس راستے میں مشکلات آئیں یا کوئی نقصان پہنچ جائے تو وہ بھی ان کے درجات کی بلندی کا سبب بن جائے گا ۔ ٭نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کفار و مشرکین کے مسلسل انکار ، مذاق اڑانے اور دین کی سچائیوں کو جھٹلانے سے رنجیدہ نہ ہوں ، نہ کسی کی پرواہ کریں کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کے برے اعمال کے ذمے دار نہیں ہیں ۔ اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ جو شخص بھی ایمان اور صالح زندگی کو اپنائے گا اس کا طرز عمل اس کو فائدہ دے گا لیکن جو کفر و شرک پر اصرار کرے گا اور ایمان و عمل صالح کی طرف نہیں آئے گا وہ برے انجام سے نہیں بچ سکتا اور اس کا وبال اس پر ہی پڑے گا ۔ ٭فرمایا کہ زندگی اور موت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے وہی قادر مطلق ہے جو ہر طرح کی عبادت و بندگی کے لائق ہے وہی قیامت کے دن کا مالک و مختار ہے۔ فرمایا کہ ان کفار و مشرکین کا وہ حال دیکھنے کے قابل ہوگا جب عذاب ان کے سامنے آجائے گا تو وہ لوگ جو دنیا کی معمولی دولت کو اپنا سب کچھ سمجھ کر کفر و شرک میں مبتلا تھے وہ تمنا کریں گے کہ کاش ساری دنیا اور اس سے بھی زیادہ دنیاؤں کی دولت اگر ان کے پاس ہوتی تو وہ اس کو دے کر اس شدید عذاب سے بچ جاتے لیکن ان کی یہ تمنا پوری نہ ہوگی اور ان کو شدید عذاب دیا جائے گا ۔ ٭ فرمایا کہ اہل ایمان کو اللہ کی رحمت سے مایوں نہیں ہونا چاہیے اگر کسی سے کوئی غلطی ہوجائے یا زمانہ کفر و جہالت میں ان سے کوئی بڑا گناہ ہوگیا ہوگا تو اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے وہ سارے گناہ معاف کر دے گا لیکن اگر کوئی شخص اپنے گناہوں اور کفر و شرک پر جما رہے گا تو آخرت میں اس کو سوائے شرمندگی اور پچھتاوے کے کچھ بھی حاصل نہ ہو سکے گا ۔ ٭فرمایا کہ قیامت کے دن ساری حاکمیت اور حکومت اللہ کے ہاتھ میں ہوگی۔ جب پہلی مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو جتنے بھی لوگ ہوں گے ان کے ہوش و حواس اڑ جائیں گے اور سب چیزوں پر فنا چھا جائے گی لیکن دوسرا صور پھونکے جانے کے بعد سب کے سب لوگ زندہ ہو کر حیران و پریشان چاروں طرف دیکھیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنی تجلی فرمائیں گے تو اس کے نور و تجلی سے ساری کائنات جگمگا اٹھے گی ۔ پھر انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی امتوں کو بلایا جائے گا ۔ سب کے نامہ اعمال ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے اور ہر ایک کی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب لیا جائے گا ۔ اللہ کسی پر ظلم و زیادتی نہ فرمائیں گے بلکہ ان کے کیے ہوئے اعمال کے مطابق ہر ایک کے درمیان صحیح صحیح فیصلے فرما دیں گے۔ ٭آخر میں فرمایا کہ آخرت میں دو گروہ بن جائیں گے ایک اہل ایمان جنت والوں کا اور ایک اہل کفر جہنم والوں کا ۔ سب سے پہلے کفار کو ( جانوروں کی طرح) فرشتے جہنم کی طرف گروہ در گروہ گھسیٹ کرلے جائیں گے اور ان پر طنز کرتے ہوئے پوچھیں گے کہ ٭کیا تمہارے پاس اللہ کے نبی اور رسول نہیں آئے تھے ؟ ٭کیا وہ اللہ کا پیغام نہیں لائے تھے ؟ ٭کیا تمہیں راہ ہدایت کی طرف انہوں نے متوجہ نہیں کیا تھا ؟ وہ کہیں گے کہ بیشک وہ پیغمبر آئے تھے انہوں نے ہمیں راہ راست کی تلقین کی تھی مگر ہماری بد قسمتی تھی کہ ہم نے ان کی بات نہیں مانی ، اس اقرار کے بعد فرشتے ان کفار کی جماعتوں کو لے کر چلیں گے۔ جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ وہ اس جہنم میں داخل ہوجائیں جہاں ان کو ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہوگا ۔ فرمایا کہ دوسری طرف اہل تقویٰ مومنین کے گروہ ہوں گے فرشتے ان کو پورے اعزازو اکرام کے ساتھ بہترین سواریوں پر سوار کر کے لے کر چلیں گے تو جنت کے دروازے ان پر کھول دیئے جائیں گے فرشتے ان کو سلام کریں گے اور مبارک باد پیش کریں گے اور کہیں گے کہ اب تم سب اس جنت میں داخل ہو جائو جہاں تم سب کو ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے۔ اس پر وہ اہل جنت اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہیں گے کہ الحمد للہ ہمارے پروردگار نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کردیا ۔ اب ہمیں وہ تمام نعمتیں حاصل ہوگئی ہیں جن کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اس دن تمام فرشتے حلقہ باندھے ہوئے اللہ کی اور تسبیح و حمد کرتے ہوں گے اور اس دن اللہ تعالیٰ تمام بندوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلے فرما دیں گے اور ہر طرف سے ایک ہی صدا بلند ہو رہی ہوگی الحمد للہ رب العالمین۔
Top