تعارف
تعارف سورة المومن، بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورۃ المومن کے مضامین خلاصہ یہ ہے۔
٭اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کفار مکہ جس قرآن کا مذاق اڑا رہے ہیں وہ کوئی معمولی کلام نہیں ہے کیونکہ اس کو اللہ نے نازل کیا ہے جو زبردست غلبہ و اقتدار کا مالک ہے جو ہر چیز کا جاننے والا ، گناہوں کو بخشنے والا ، توبہ قبول کرنے والا ، گناہوں پر سخت سزا دینے والا اور ہر طرح کی قدرت رکھنے والا ہے ۔ اس کے سوا کوئی دوسرا عبادت و بندگی کے لائق نہیں ہے۔ وہ وقت دور نہیں ہے جب ہر ایک کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
٭نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جانثار صحابہ کرام (رض) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ اللہ و رسول کا انکار کرنے والے جو آج آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑ رہے ہیں اور دنیا کمانے میں دن رات تگ و دو کر رہے ہیں کہیں ان کی بھاگ دوڑ اور چلت پھرت اس دھوکے میں نہ ڈال دے کر یہ لوگ تو بڑے کامیاب و بامراد ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب لوگ انتہائی ناکام ہیں اور ان کا انجام بہت برا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے نافرمان لوگ بھی دنیا کمانے میں بہت آگے تھے لیکن جب ان پر اللہ کے قانون کا کوڑا برسا تو وہ ناکام و نامراد ہوگئے اور ان سب کو پانی کے طوفان میں ڈبو دیا گیا ۔
( اس سورة کا نام المومن اس لیے رکھا گیا ہے کہ فرعون جیسے ظالم شخص کے گھرانے ہی میں سے ایک ایسا مرد مجاہد بھی نکل کر فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوگیا جس نے ان کو بتایا کہ اللہ بڑی قدرت والا ہے۔ اسی پر ایمان لائو اور سیدھا راستہ اختیار کرو ۔ اس مرد مومن پر تمام لوگوں نے یلغار کردی لیکن جب اللہ نے فرعون اور اس کے ماننے والوں کو پانی میں ڈبو کر ہلاک کردیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، ان کے ماننے والوں اور اس مرد مومن کو نجات عطاء فرما دی ۔ اللہ نے اس مرد مومن کی یہ قدر فرمائی کہ اس کے نام پر ایک سورت نازل فرمائی) ۔
٭اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کے لئے عرش اٹھانے والے فرشتے جو بہت مقرب ہیں وہ ہر وقت دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں ۔ وہ بارگاہ الٰہی میں عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ جو لوگ توبہ کر کے آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں ان کی توبہ کو قبول کرلیجئے۔ ان کو جہنم کی تکلیفوں سے محفوظ فرمایئے گا اور ان کے باپ دادا ، اولاد اور بیویاں جو صاحب ایمان ہیں ان کو بھی ان کے ساتھ جنت کی راحتیں اور ہر طرح کی کامیابیاں عطاء فرما دیجئے گا ۔
٭کفار و مشرکین کے لیے فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن وہ رسوا اور ذلیل ہوں گے انہیں اپنے وجود سے بھی نفرت ہوجائے گی ۔ اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے پچھتائیں گے ۔ حسرت و ندامت کے ساتھ درخواست کریں گے کہ الٰہی ہمیں کسی طرح یہاں سے نکلنے کا موقع دے دیا جائے تا کہ دنیا میں جا کر بہتر اعمال کرسکیں لیکن ان کی یہ درخواست ان کے منہ پر دے کر مار دی جائے گی اور قبول نہ کی جائے گی۔
٭حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون ، ہامان اور قارون کی ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ اپنے غرور وتکبر ، حکومت و سلطنت ، اقتدار اور مال و دولت کی چمک دمک میں اس طرح مگن تھے کہ انہوں نے نہ صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی بات ماننے سے انکار کردیا بلکہ ان کو قتل تک کرنے کا منصوبہ بنا لیا ۔
٭مگر قوم فرعون ہی میں سے ایک شخص جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سچائی اور نبوت کو جان چکا تھا اور ان کی باتوں پر ایمان لے آیا تھا مگر کسی مصلحت سے اس نے اپنے ایمان کا اظہار نہ کیا تھا جب اس نے یہ دیکھا کہ فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا فیصلہ کرلیا ہے تو اس مجاہد مرد مومن سے نہ رہا گیا اور اس نے بھرے دربار میں فرعون اور اس کے درباریوں کو للکارتے ہوئے کہا کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ اللہ اس کا پروردگار ہے ۔ اس نے تمہیں ہر طرح کے معجزات دکھادیئے ہیں پھر بھی تم اس کی بات نہیں مانتے۔ اس مرد مومن نے کہا کہ بیشک آج تم سلطنت مصر کی وجہ سے اس سر زمین پر غلبہ و اقتدار رکھتے ہو مگر تم اس بات کو بھول رہے ہو کہ سب سے بڑی طاقت اللہ کی طاقت ہے۔
جب فرعونیوں نے ان کو اپنے مذہب کی طرف بلانے کی کوشش کی تو اس مرد مومن نے کہا تم کس قدر نا عاقبت اندیش بنے ہوئے ہو کہ میں تمہیں سیدھا راستہ دکھا رہا ہوں اور تم مجھے جہنم کی طرف دھکیل رہے ہو ۔ تمہیں تو میری بات مانن چاہیے تھی۔
٭فر عون نے جب دیکھا کہ اس مرد مومن کی باتوں سے ہر شخص متاثر ہو رہا ہے تو اس نے انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور بات کو ٹالنے کے لئے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ تم میرے لیے آسمان تک بلند ایک عمارت بنا دو میں جس پر چڑھ کر اور جھانک کر دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا رب کیا کر رہا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ سب باتیں جو موسیٰ (علیہ السلام) کر رہے ہیں سب جھوٹ اور غلط ہیں۔
٭فرعون اور آل فرعون کی نا فرمانیاں جب حد سے بڑھ گئیں تو اللہ نے ان سب کو پانی میں ڈبو کر ختم کردیا ۔ اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، ان کے ماننے والوں اور اس مرد مومن کو بچا لیا ۔ اللہ نے فرمایا کہ فرعون اور اس کی قوم کے ڈوب جانے اور مرنے کے بعد ہر صبح و شام جہنم کو ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہی وہ ٹھکانہ ہے جس میں تمہیں قیامت کے دن ڈالا جائے گا ۔
٭اللہ تعالیٰ نے نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے وہئے فرمایا کہ آپ صبر و برداشت سے کام لیجئے۔ اللہ نے جو وعدہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا ہے وہ سچا وعدہ ہے اور بہت جلد پورا ہو کر رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور آپ پر ایمان لانے والوں کی پوری طرح مدد کرے گا اور کفار و مشرکین کو سخت سزا دے گا ۔
٭فرمایا اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کون سا مشکل کام ہے ۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا ۔ نطفہ سے نسل انسانی کو دنیا میں پھیلنے اور بڑھنے کا ذریعہ بنایا ۔ اسی نے زمین و آسمان کو بنایا ۔ اس نے جس طرح اور جیسی شکل انسان کو دینا چاہی ، بنا دیا ۔ اس نے انسان کے لیے بہترین غذاؤں کو پیدا کیا لیکن یہ سب کچھ ایک مدت تک ہے پھر ان کو دفن کردیا جائے گا صرف اللہ کی ذات رہ جائے گی ۔ فرمایا کہ وہ رب العالمین ہے اور نرالی شان والا ہے۔ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔
٭فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی آیات کو سننے کے باوجود ان میں جھگڑے نکالتے ہیں، رسول کو اور قیامت کو جھٹلاتے ہیں جب وہ قیامت میں پہنچیں گے تو ان کے گلے اور گردنوں میں طوق پڑے ہوں گے ان کے پاؤں زنجیروں سے جکڑے جائیں گے ، ان کو پینے کے لیے کھولتا ہوا گرم پانی ملے گا ۔ وہ ہر طرح ذلیل و رسوا ہوں گے جب ان کو گھسیٹ کر جہنم میں پھینکا جائے گا۔
٭نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر و تحمل سے دیکھتے رہیے کہ دنیا اور آخرت میں ان کفار و مشرکین کا انجام کس قدر بھیانک اور قابل عبرت ہوگا ۔ اس دن انہیں اللہ کی گرفت سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا اور کوئی ایسا نہ ہوگا جو اللہ کی بارگاہ میں حاضر نہ ہو ۔ سب کو حاضر ہو کر اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا۔