تعارف
بسم اللہ الرحمن الرحیم :٭اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو عربی زبان میں اس لئے نازل کیا ہے تا کہ اس کتاب کے اولین مخاطب اہل مکہ ( اور قیامت تک آنے والے) اس کو آسانی سے سمجھ کر اس پر عمل کرسکیں لیکن انہوں نے اس پر عمل کرنے کے بجائے اس سے منہ پھیرا اور اس کا مذاق اڑایا۔
فرمایا کہ انہیں یاد کھنا چاہیے کہ ان سے پہلے اللہ کے پیغمبر جب بھی اللہ کی کتابیں لے کر آئے تو ان کا مذاق اڑایا گیا اور ان کی تعلیمات کو ان کی قوم نے نظر انداز کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنی نا فرمانیوں کی سزا بھگت کر تباہ و برباد ہوگئے۔ حالانکہ وہ ان سے زیادہ طاقت ور اور دنیا بھر کے وسائل رکھتے تھے۔ جب وہ نہ بچ سکے تو تم اللہ کے عذاب سے کیسے بچ سکتے ہو۔
٭فرمایا تم اس بات کو مانتے ہو کہ زمین و آسمان کو اللہ نے پیدا کیا لیکن پھر بھی تم اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہو اور اس بات کا عقیدہ رکھتے ہو کہ فرشتے جو اللہ کی فرماں بردار مخلوق ہیں وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں جو قیامت کے دن تمہاری سفارش کرکے تمہیں عذاب الٰہی سے بچا لیں گے ۔ فرمایا کہ تمہارا یہ عقیدہ بالکل عقیدہ بالکل غلط ہے اور اللہ کی شدید نا شکری ہے۔
( لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور پیدا ہونے میں دونوں برابر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ سے فرمایا تمہارا یہ حال ہے کہ اگر تمہارے گھر میں لڑکی پیدا ہوجاتی ہے تو تم شرمندگی سے منہ چھپائے پھرتے ہو تمہارے چہرے تاریک ہوجاتے ہیں لیکن تم اللہ کی فرمانبردار مخلوق فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے ہو یعنی اپنے لیے بیٹوں کو پسند کرتے ہو اور اللہ کے لیے بیٹیوں کو کیسا عجیب انصاف ہے ؟ )
٭لڑکایا لڑکی دونوں کو اللہ نے پیدا کیا لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ تم نے اللہ کے فرشتوں کو اس کی بیٹیاں سمجھ رکھا ہے خود تمہارا یہ حال ہے کہ اگر تمہارے گھر میں بیٹی پیدا ہوجائے تو شرمندگی سے تمہارا چہرہ سیاہ اور تاریک پڑجاتا ہے تم کیسے عجیب لوگ ہو کہ اپنے لیے بیٹوں کو پسند کرتے ہو اور اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہو۔
٭کفار قریش کہتے تھے کہ اگر ہماری بت پرستی اللہ کو ناپسند ہوتی تو وہ ہمیں ( اپنے گھر میں) ان کی عبادت سے جبراً روک دیتا ۔ اللہ نے ان کو اس بےوقوفی کی بات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا اگر کوئی شخص چوری کرتا ہے یا کسی کو قتل کرتا ہے یا کوئی ناپسندیدہ فعل کرتا ہے کیا وہ کہہ سکتا ہے کہ اگر اللہ کو پسند نہ ہوتا تو یہ کام میں کیسے کرسکتا تھا ؟
٭جب ان سے کہا جاتا کہ وہ ایک اللہ کو چھوڑ کر سیکڑوں بتوں کی عبادت و بندگی کیوں کرتے ہیں ؟ وہ یہ کہتے کہ ہم نہ اپنے باپ دادا کو اسی پر پایا ہے۔ اللہ نے فرمایا تم نے باپ دادا کی اندھی تقلید کا ذکر تو کیا لیکن تم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ ان کی نا فرمانیوں کا انجام کیا ہوا ؟ وہ لوگ غیر اللہ کی عبادت کرنے کی وجہ سے اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکے۔
٭حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) اللہ نے زندگی بھر اللہ کے دین کو پہنچانے اور قوم کو شرک و کفر اور بت پرستی کی لعنت سے نجات دلانے کی جدوجہد فرمائی لیکن جن لوگوں پر مال اور دولت کا بھوت سوار تھا انہوں نے ان کی ہر بات ماننے سے صاف انکار کیا ۔
( حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے ان کو بغیر باپ کے معجزہ کے طور پر پیدا کیا تو لوگوں نے ان کو مبعود بنا لیا حالانکہ وہ زندگی بھر توحید کی تعلیم دیتے رہے۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں کو قیامت کے دن سے ڈرنا چاہیے جو ان سے بہت دور نہیں ہے۔ یہ وہ دن ہوگا جب دوست بھی تمہارے دشمن بن جائیں گے لیکن اہل ایمان آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور ہمدرد ہوں گے۔ )
٭اللہ نے فرمایا وہ کہتے ہیں کہ اگر اللہ کو قرآن نازل کرنا ہی تھا تو مکہ کے مال دار ، صاحب حیثیت اور تجربہ کار لوگوں میں سے کسی پر نازل کردیا جاتاتو ہم اس کو آسانی سے مان لیتے۔ جواب میں فرمایا یہ تو اللہ کے نظام کا ایک حصہ ہے وہ جس کو چاہے نبوت کی نعمت سے نواز دیتا ہے وہ کسی کے کہنے سے نبوت نہیں دیتا فرمایا کہ تم دیکھتے ہو دنیا میں کوئی غریب ہے کوئی امیر ہے کوئی آقا ہے کوئی غلام ہے ۔ کیا تم ان میں بھی کہتے ہو کہ فلاں غریب کیوں ہے اور دوسرا مال دار اور رئیس کیوں ہے ؟ فرمایا اللہ کی نظر میں یہ سرداریاں اور مال و دولت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اللہ کے خزانوں میں کمی نہیں ہے ۔ اگر وہ چاہتا تو لوگوں پر سونے کی بارش برسا دیتا کہ ان کے گھروں میں سونے چاندی کے ڈھیر ہوتے مگر اس نے ایسا نہیں کیا ورنہ لوگ اسی طرف ڈھلک جاتے ۔ فرمایا کہ انسان کی قدر و قیمت جاننے اور پہنچاننے کے لیے دولت اور عزت و عظمت معیار نہیں ہے بلکہ انسان کے اعلیٰ اخلاق اور اس کی شرافت اور نیکی سب سے بڑا معیار ہے کیونکہ یہ مال و دولت اور عزت و عظمت تو دنیاوی ساز و سامان ہیں جو وقتی ہیں ہمیشہ اس کے ساتھ نہیں رہیں گے۔ جو لوگ آخرت کا سامان کرتے اور اللہ سے ڈرتے ہیں در حقیقت کامیاب وہی لوگ ہیں۔
٭فرمایا جب آدمی اپنا گمراہی کا مزاج بنا لیتا ہے تو اللہ اس پر ایک شیطان مسلط کردیتا ہے جو اس کو برے اور گندے راستوں کی طرف لے جاتا ہے اور اچھی بات سے نفرت دلاتا ہے لیکن جب قیامت کے دن اس شیطان کی وجہ سے وہ جہنم میں لے جایاجائیگا تو اس وقت وہ اپنے ساتھی شیطان سے نفرت کرے گا پچھتائے گا مگر اس وقت اس کا پچھتانا اور شرمندہ ہونا اس کے کام نہ آئے گا اور وہ عذاب الٰہی سے بچ نہ سکے گا ۔
٭فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب یہ کفار و مشرکین جان بوجھ کر اندھے ، بہرے اور گونگے بنے ہوئے ہیں اور ہر گمراہی کی طرف فوراً لپک کر جاتے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کی فرمانیوں کی پروا نہ کیجئے اور اس بات پر غم نہ کیجئے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا فریضہ تبلیغ دین ادا کرتے رہیے آپ ہی سیدھے راستے پر ہیں۔
٭فرمایا کہ لوگوں کا یہ تصور کہ نبی کو مال دار اور صاحب حیثیت ہونا چاہیے تھا یہ کوئی نبی بات نہیں ہے بلکہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو للکارا اور معجزات دکھائے تو اس نے بھی اپنی قوم سے کہا تھا کہ میرے پاس حکومت و سلطنت ، عیش و عشرت کے سامان ، خوبصورت باغات اور مال و دولت کے ڈھیر ہیں لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس کیا رکھا ہے ؟ یہ موسیٰ اگر واقعی اللہ کے پیغمبر ہوتے تو زمانہ کے دستور کے مطابق ان کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن ہوتے ان کے آس پاس فرشتے ہوتے۔ فرمایا کہ فرعون نے ان باتوں سے خود ہی گمراہی خرید لی ، ، خود بھی گمراہ ہوا اور دوسروں کو بھی گمراہی میں مبتلا کردیا ۔ بد ترین انجام سے دو چار ہوا خود بھی ڈوب مرا اور اپنی پوری قوم کو بھی مروا دیا اور تباہ و برباد کرا دیا۔
٭حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب اللہ نے ان کو بغیر باپ کے معجزہ کے طور پر پیدا کیا تو لوگوں نے ان کو اپنا معبود بنا لیا حالانکہ وہ زندگی بھر توحید کی تعلیم دیتے رہے۔ ایسے نافرمانوں کو قیامت کے دن سے ڈرنا چاہیے جو ان سے بہت دور نہیں ہے۔ اس دن دوست بھی دشمن بن جائیں گے لیکن اہل ایمان آپس میں ایک دوسرے کے دوست ، ہمدرد اور غم گسارہوں گے۔
٭قیامت کے دن اہل ایمان کو نہ تو کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ان کی صالح اور نیک بیویاں بچے ان کے ساتھ ہوں گے۔ سونے چاندی کے برتنوں میں کھائیں گے ۔ جس چیز کی خواہش کریں گے وہ ان کی ملے گی۔ ان کے بر خلاف مجرمین کا یہ حال ہوگا کہ وہ عذاب الٰہی کو سامنے دیکھ کر جہنم کے داروغہ جس کا نام مالک ہوگا اس سے فریاد کریں گے کہ اپنے اللہ سے یہ کہہ دو کہ وہ ہمیں موت کی نیند سلا دے تا کہ ہم اس عذاب سے بچ سکیں مگر ان کو موت نہ آئے گی۔
٭اللہ بےنیاز ہے ۔ زمین و آسمان اور اس کے درمیان جو کچھ ہے وہ ان سب کا مالک اور بادشاہ ہے۔ انبیاء اور نیک لوگوں کے علاوہ کسی کی سفارش نہ سنے گا ۔ فرمایا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اللہ کا پیغام پہنچاتے رہیے اگر کوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آڑے آتا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے تم سلامت رہو ۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کا بھیانک انجام دیکھیں گے جب ان کے سامنے سے سارے پردے ہٹ جائیں گے۔