بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ الفتح - تعارف
تعارف
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ نمبر 48 کل رکوع 4 آیات 29 الفاظ و کلمات 568 حروف 2555 مقام نزول مکہ مکرمہ ٭ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایسا عظیم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عطا فرمایا ہے جو شاہد ‘ بشیر اور نذیر ہے۔ ان کی مدد ‘ تعظیم و تکریم اور اللہ کی صبح و شام تسبیح کرنا اور جو انہوں نے اللہ سے عہد کیا ہے اس کو پورا کرنا ہی ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبہ کو فتح مبین قراردیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اگر صلح حدیبیہ نہ ہوتی تو اہل ایمان کو وہ کامیابیاں اور فتوحات حاصل نہ ہوتیں جو اس صلح کی برکت سے حاصل ہوئی ہیں۔ یہی وہ موقع تھا جب دین اسلام ایک ایک گھر میں پہنچا اور حکومتوں کے سربراہوں کو بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دین اسلام کو قبول کرنے کی دعوت دی اور فوج در فوج لوگوں نے دین اسلام کو قبول کرنا شروع کیا۔ یہی فتح مبین ہے۔ ٭اللہ نے دین اسلام کی ترقی کو ایک پودے سے تشبیہ دی ہے جس طرح ایک پودا جو نرم و ناز ہوتا ہے آہستہ آہستہ وہ ایک تنا ور درخت بن جاتا ہے اسی طرح صحابہ کرام (رض) کے لیے فرمایا کہ ایک وقت وہ تھا جب مسلمان کمزور تھے مگر اب وہ اتنے طاقت ور ہوگئے ہیں جو دنیا پر غالب آجائیں گے۔ ٭اس سورة میں ایک کھلی ہوئی فتح کی خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر اس سلسلہ میں یا خلوص کے ساتھ کیے گئے کسی کام میں بھی کوئی کوتاہی یا کمی رہ گئی ہو یا آئندہ ہوجائے تو ہم نے اس کو معاف کردیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سیدھے راستے پرچلا رہا ہے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا مثالی غلبہ عطا فرمائے گا جس میں عزت ہی عزت ہے۔ ٭فرمایا کہ اگر مخالفین اس بات کا شت سے پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ ان کے پاس زبردست لشکر ہے تو انہیں یادرکھنا چاہیے کہ اس کائنات میں زبردست لشکر صرف اللہ کا ہے۔ وہ ہر چیز سے واقف ہے اور ہر بات کی حکمت کو اچھی طرح جانتا ہے کہ کس کام کو کس وقت کس انداز سے ہونا چاہیے۔ ٭اہل ایمان اپنا حسن عمل پیش کرتے رہیں اس میں کی یا کوتاہی نہ کریں۔ اللہ نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کررکھی ہیں جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ٭منافق و مشرک مردعورتیں جو اللہ کے بارے میں اچھا گمان ہیں رکھتے ان کے لیے جہنم تیا رہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ٭اللہ نے مومنوں سے فرمایا ہے کہ اللہ کا کتنا بڑا حسان ہے کہ اس نے تمہیں ایک ایسا عظیم رسول عطا فرمایا ہے جو قیامت میں تمہارے سارے اعمال پر گواہی دینے والا ‘ ہر نیک عمل پر خوش خبری دینے والا اور کافروں کو انکے برے انجام سے ڈرانے والا ہے۔ ان کے بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ان پر ایمان لائیں۔ ان کے ساتھ مل کر اللہ کے دین کی مدد کریں۔ ان کی عزت واحترام اور تعظیم میں کی نہ کریں اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہیں۔ ٭فرمایا کہ جن لوگوں نے ” بیعت رضوان “ کی تھی درحقیقت انہوں نے اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی لہذا کوئی عہد شکنی نہ کرے۔ اگر کسی نے اپنے عہد کو توڑا تو اسے اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ لیکن جو اپنے عہد کو پوراکرے گا اس کو اجرعظیم سے نوازا جائے گا۔ لوگوں کو عہد شکنی سے بچ کروفائے عہد کرنا چاہیے۔ وہ منافقین جن کا اسلام ان کی زبانوں تک محدود تھا جب اسلام کیلئے قربانیاں دینے کا وقت آیا تو ان کا کردار بھی کھل کر سامنے آگیا۔ جب اہل ایمان عمرہ کے لیے روانہ ہورہے تھے اس وقت منافقین نے اس بات کا بڑی شدت سے پروپیگنڈا کیا کہ مسلمانوں کو کفار کے گڑھ میں نہیں جانا چاہیے کیونکہ اگر وہ چلے گئے تو ان کا مدینہ منورہ واپس لوٹ کر آناممکن نہ ہوگا۔ یہ سوچ کر وہ بغیر کسی عذر کے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے۔ فرمایا کہ جب اہل ایمان مدینہ منورہ واپس آگئے ہیں تو وہ منافقین اپنی اس شرمندگی کو مٹانے کے لیے غلط سلط عذر اور بہانے پیش کررہے ہیں۔ اب منافقین کو یقین ہوگیا تھا کہ مومنین اس کے بعد کامیابیں سے ہم کنارہوں گے۔ جب انہوں نے یہ سنا کہ اب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) خیبر کی طرف جارہے ہیں تو انہیں اس میں اپنا فائدہ نظر آیا لہٰذا انہوں نے خیبر کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر ان تمام لوگوں کو خیبر کی مہم میں شرکت سے روک دیا جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صلح حدیبیہ میں شریک نہیں تھے اور فرمایا کہ اس کے بعد ان کو ایک اور موقع دیا جائے گا جو درحقیقت ان کا امتحان اور آزمائش ہوگی۔ فرمایا کہ اگر انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تو ان کو اس کا بہترین بدلہ عطا کیا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ بغیر کسی عذر کے مکہ جانے سے رہ گئے تھے وہ ان کی غلطی تھی لیکن اگر کسی کو واقعی عذر تھا کوئی معذور ‘ اندھا ‘ لنگڑا ور بیمار تھا اور وہ اپنے اس عذر کی وجہ سے نہ جاسکا تھا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔ البتہ عام زندگی میں ہر ایک کو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنی ہوگی۔ اگر کسی نے اس سے منہ پھیرا تو اس کو سخت سزادی جائے گی اور اگر وہ اطاعت کریں گے تو ان کو جنت کی ابدی زندگی کی ابدی راحتیں عطاکی جائیں گی۔ حدیبیہ کے موقع پر جن صحابہ کرام (رض) نے بیعت (بیعت رضوان) کی تھی ان کے متعلق فرمایا جارہا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا ہے اب ان کو بہت سی کامیابیاں اور فتوحات حاصل ہوں گی۔ اللہ نے فرمایا کہ اس موقع پر جنگ نہیں ہوئی یہ اللہ کا بڑا احسان ہے کیونکہ اگر جنگ ہوتی تو وہ لوگ جو دلی اعتبار سے اسلام قبول کرچکے ہیں مگر کسی مصلحت سے اپنے ایمان کا اظہار نہ کرسکے ہو سکتا تھا کہ ان کو بیخبر ی کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچ جاتا۔ اس لیے اللہ نے دونوں فریقوں کو جنگ سے روک دیا لیکن اگر اس حالت میں بھی جنگ ہوجاتی تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غلبہ عطا فرماتا۔ ٭فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو خواب دیکھا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرہ اداکر رہے ہیں اور صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بغیر عمرہ کیے واپس آگئے تھے۔ اس میں اللہ کی مصلحت تھی لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) بیت اللہ شریف میں پہنچ کر عمرہ ادا کریں گے اس شان سے اس میں داخل ہوں گے کہ ہر طرف امن وامان ہوگا۔ کوئی سروں کے بال منڈوائیں گے اور کوئی بال کم کر امئیں گے اور ان کو کفار کا کوئی خوف نہ ہوگا۔ ٭فرمایا کہ اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ وہ اسکو دنیا کے ہر مذہب پر غالب کردکھائیں۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور ان کی رسالت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔ ان کے ساتھ وہ لوگ ہیں جو آپس میں تو شیرو شکر ہیں لیکن اللہ کے اللہ کے دشمنوں کے لیے بہت سخت ہیں۔ کبھی وہ رکوع میں ہیں کبھی سجدوں میں وہ محض اللہ کی رضا و خوشنودیکیلیے اس کی عبادت کرتے ہیں۔ انکے چہروں سے ان کی عبادت کی کیفیات ظاہر ہیں۔ ان کے لیے توریت اور انجیل میں بھی پیشن گوئیاں موجود ہیں۔ ٭اللہ نے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح ایک کھیتی ہے جب پودا اپنی کونپل نکالتا ہے۔ پھر وہ کونپل آہستہ آہستہ موٹی ہو کر اپنی بنیادوں پر مضبوطی سے کھڑی ہوجاتی ہے تو جس نے کھیتی بوئی ہے وہ اپنی کھیتی کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ فرمایا کہ اسی طرح اسلام کا پودا کبھی بہت کمزور تھا اب طاقت ور ہوگیا ہے۔ ایک وقت وہ آنے والا ہے جب پوری امت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا بھر کی فتح سے خوش ہوجائیں گے۔ ان صحابہ کرام (رض) کو ہر طرف کامیابیاں اور فتوحات حاصل ہوتی چلی جائیں گی اور دین اسلام ہر نظریہ اور مذہب پر غالب آکر رہے گا۔ ٭ جو لوگ اللہ و رسول کی اطاعت کریں گے ان کو معاف کرکے اجر عظیم عطا کیا جائے گا اور دین و دنیا کی بھلائیاں عطا کی جائیں گی۔
Top