بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ الحجرات - تعارف
تعارف
تعارف سورة الحجرات بسم اللہ الرحمن الرحیم ( سورة نمبر ٤٩۔ کل رکوع ٢۔ آیات ١٨ ۔ الفاظ و کلمات ٣٥٠ ۔ حروف ١٥٧٣ ۔ مقام نزول مدینہ منورہ ) ( مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں فرمایا گیا کہ اگر وہ بھائیوں یا مسلمانوں کی جماعت میں کبھی کوئی شدید اختالاف یا جھگڑا پیدا ہوجائے تو ہر مومن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان دونوں کے درمیان صلح صفائی کرادیا کرے ۔ اسی میں دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کا راز پوشیدہ ہے۔ ) (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ادب و احترام ایمان کی علامت اور روح کی حلافت ہے۔ کوئی شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اپنی آواز کو بلند نہ کرے۔ کوئی آدمی ایسا کام نہ کرے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرمانبرداری کی خلاف ورزی ہوتی ہو اور کوئی کام نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرضی کے خلاف نہ ہو۔ ) (اللہ نے سب لوگوں کو خاندانوں اور قبیلوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے کہ ہر ایک دوسرے کو پہچان سکے۔ لیکن حسب نسب، خاندان اور قبیلہ ایک دوسرے پر فخر کے لیے نہیں بنایا گیا۔ کیونکہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل احترام وہ ہے جو پرہیز گار اور تقویٰ اختیار کرنے والا ہے۔ ) اس سورة میں ہر مومن کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احترام اور تعظیم کرے اس کے لیے کچھ آداب بتائے گئے ہیں۔ (١) پہلا ادب یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے نہ بڑھے یعنی کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہو۔ اللہ اور رسول کے مقابلے میں اپنی رائے سے کوئی فیصلہ نہ کیا جائے بلکہ وہی کام کرے جس کا اسے حکم دیا گیا ہے۔ (٢) فرمایا کہ تم اپنی آواز کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اونچا نہ کرو بلکہ ان کی آواز سے اپنی آواز کو پست رکھو۔ اللہ کو یہی پسند ہے۔ (٣) فرمایا کہ تم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح مخاطب نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو خطاب کرتے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال اس بےادبی کی وجہ سے غارت ہوجائیں اور تمہیں اس کی خبر نہ ہو۔ (٤) ایک ادب یہ سکھایا گیا کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر کے اندر مصروف ہوں تو ان کو باہر سے آوازیں نہ دی جائیں بلکہ اس وقت تک انتظار کیا جائے جب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ہی باہر تشریف نہ لے آئیں۔ (٥) ایک ادب یہ سکھایا گیا کہ اگر کسی طرف سے کوئی بات پہنچے تو اس کو سنتے ہی مشہور نہ کردہ بلکہ اس کی تحقیق کرلیا کرو۔ جب تمہارے اندر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں (یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آپ کے تابع دار موجود ہوں) تو ان کو اطلاع کردو تاکہ وہ اس کی تحقیق کرلیں۔ کہیں ایسانہ ہو کہ تم کسی غلط فہمی کی بنیاد پر کسی کو نقصان پہنچا دو ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب و تعظیم کا حکم دے کر فرمایا گیا کہ اہل ایمان آپس میں بھی ایک دوسرے کا احترام کرنے والے بنیں اور کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے ان کا معاشرہ بکھر کر رہ جائے۔ اس کے لیے چند بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں۔ (١) پہلا اصول یہ ہے کہ اگر مومنوں کی دو جماعتوں میں کسی وجہ سے اختلاف ہوجائے تو ممکن حد تک ان دونوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ صلح صفائی کرانے کی کوششیں کی جائیں کیونکہ دونوں جماعتیں آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ (٢) کوئی مرد دوسرے مرد کا، کوئی مردوں کی جما عت دوسری جماعت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہ ان سے بہتر ہوں جو مذاق اڑا رہے ہیں۔ (٣) ایک دوسرے کو کسی طرح کے طعنے نہ دیا کریں کیونکہ مومن کی شان نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کو طعنے دیں۔ (٤) نہ برے القاب اور برے الفاظ سے ایک دوسرے کو پکاریں۔ (٥) کوئی بد گمانی سے کام نہ لے۔ کیونکہ کبھی کبھی بد گمانیوں کی وجہ سے تباہی پھیل جاتی ہے اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ (٦) نہ ایک دوسرے کی پیٹھ پیچھے برائیاں یعنی غیبت کی جائے کیونکہ یہ اتنی بری بات ہے کہ جیسے آدمی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہے۔ جس طرح مردہ بھائی کا گوشت کھانا کوئی بھی گوارا نہیں کرسکتا اسی طرح غیبت کرنا کیسے گوار کرسکتا ہے۔ (٧) سب انسان حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں جن میں مختلف قبیلے اور خاندان ہیں۔ یہ قبیلے اور خاندان ایک دوسرے کی پہچان تو ہیں لیکن فخر کرنے کی ان میں کوئی بات نہیں ہے۔ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل احترام وہ شخص ہے جو تقویٰ میں سب سے آگے ہے۔ (٨) اللہ کا یہ فضل و کرم ہے کہ اس نے تمہیں ایمانلانے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ یہ بھی شکر کا مقام ہے فخر کا مقام نہیں ہے لہٰذا کوئی شخص اپنے ایمان لانے کا دعویٰ نہ کرے۔ فرمایا کہ اصل میں وہ شخص مومن ہے جو دل سے اللہ کو ایک مانتا ہے۔ اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے اور اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے ایمان و اسلام کا احسان جتاتا پھرے۔ یہ تو اللہ کا احسان اور کرم ہے کہ اس نے تمہیں ایمان اور اسلام لانے کی توفیق دی ہے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ فرمایا کہ اللہ ہر شخص کے حالات سے اچھی طرح واقف ہے وہی ہر چیز پر اجر اور ثواب عطا کرنے والا ہے۔
Top