بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ النساء - تعارف
تعارف
سورة نساء۔ سورة نمبر ٤۔ رکوع ٢٤، آیات ١٧٦۔ الفاظ وکلمات ٣٧٢٠۔ حروف ١٦٦٦٧۔ مقام نزول مدینہ منورہ۔ سورة النسا غزوہ احد کے بعد نازل کی گئی، جس جنگ میں ستر سے زیادہ صحابہ کرام شہید ہوئے۔ اتنی بڑی تعداد میں گھروں کے سرابراہوں کے اٹھ جانے سے عورتوں بچوں کے مسائل میراث و جائیداد کی مشکلات پیش آئیں، اللہ تعالیٰ نے سورة النساء۔ میں عورتوں کے حقوق کے ساتھ اخلاق معاشرے معیشت کے بنیادی اصول نازل فرمائے، تاکہ ان مطابق اسلامی معاشرہ اور خاندانوں کی شیرازہ بندی کی جاسکے۔ تعارف سورة النساء سورة النساء میں تمام انسانی حقوق خاص طور پر خواتین کے بنیادی حقوق، یتیم بچے، بچیوں۔ غلام اور باندیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بعض اہم ذمہ داریوں کی وجہ سے مردوں کو ایک درجہ فضیلت عطا کیا ہے لیکن انسانی حقوق میں مرد اور عورتیں دونوں یکساں اور برابر ہیں۔ چونکہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت عطا کیا گیا ہے اس لیے ان کو ایک خاندان کو بنائے رکھنے میں عظیم حوصلے اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔ شریعت میں عورتوں کو ہر طرح کے ظلم وستم اور زیادتیوں سے بچانے کے لئے اس عرب معاشرہ میں جہاں بیویاں رکھنے پر کوئی پاندی نہیں تھی اور بیشمار شادیاں کرکے عورتوں کو بھیڑیوں کی طرح رکھتے تھے حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایک ہی بیوی رکھیں کسی شدید ضرورت کے وقت ایک سے زیادہ بھی بیویاں کی جاسکتی ہیں مگر ان کی تعداد چار سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ ایک کے بعد دوسری عورت سے شادہ کرنے میں یہ شرط ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کرنا ہوگا۔ یہ بھی خیال رہے کہ چار تک شادیاں کرنے کی اجازت ہے ہر مسلمان کو حکم نہیں دیا گیا کہ وہ چار شادیاں ضرور کرے ورنہ وہ مسلمان نہیں رہے گا (نعوذ باللہ) چونکہ مرد خاندانی امور کا ذمہ دار بنایا گیا ہے اس لیے اس خاندان کو بنائے رکھنے کی گرہ مرد کے ہاتھ میں دی گئی ہے چاہے تو اس گرہ کو باندھے رکھے چاہے تو کھول دے یعنی طلاق دے دے۔ مگر شریعت میں طلاق دینے کو سب سے بری حرکت قرار دیا گیا ہے جس سے نہ صرف عرش الٰہی کانپ اٹھتا ہے بلکہ اللہ کا غصہ بھی نازل ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر طلاق دینا ضروری عرش الٰہی کانپ اٹھتا ہے بلکہ اللہ کا غصہ بھی نازل ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر طلاق دینا ضروری ہوجائے تو قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریقے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات کی روشنی میں پوری احتیاط سے طلاق دی جائے۔ کیونکہ طلاق دو حقیقت چلائے ہوئے اس تیر کی طرح ہے جو کمان میں واپس نہیں آتا۔ اگر یہ تیر کمان میں واپس آئے گا تو مرد اور عورت کو کافی ذلت اٹھانا پڑتی ہے۔ شریعت کے احکامات کے مطابق مرد اور عورت میراث میں شریک ہیں۔ عورتوں کو میراث سے محروم کرنا ظلم ہے جس کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ شریعت نے عورتوں کو ایک خاص حد تک آزادی دی ہے اس پر پابندی لگانے کا اکسی کو اختیار نہیں ہے اور عورتوں کو بھی شریعت نے جتنی آزادی عطا کی ہے ان حدود کا خیال رکھنا ہر مومن عورت کی ذمہ داری ہے۔ دنیا میں فیشن اور ترقی کے نام پر کھلی آزادی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعلان نبوت سے پہلے عورتوں پر ظلم کی انتہاء یہ تھی کہ عورتیں بھی شوہر کے مرتے ہی مراث کی طرح تقسیم کی جاتی تھیں۔ دین اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی اور قطعاً ممنوع قرار دیا گیا۔ عربوں میں یہ جاہلانہ رسم جاری تھی کہ وہ اپنی سوتیلی ماؤں سے نکاح کرلیا کرتے تھے ۔ فرمایا گیا کہ یہ کتنی بےحیائی اور بےشرمی کی بات ہے کہ کل تک جس کو ماں کہتے رہے ہو باپ کے مرنے کے بعد اس کو بیوی کی حیثیت سے رکھنے پر کیا تمہیں اس بےحسی پر غیرت نہیں ائے گی۔ اسی لیے شریعت نے سوتیلی ماؤں کو بھی حقیقی ماں کا مقام دے کر ان سے نکاح کو حرام قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں بیان کیا گیا کہ نسب اور رضاعت (دودھ پلانے) سے کون کون سے عورتیں ہیں جن سے نکاح کرنا حرام ہے۔ عورتوں پر یہ بھی ظلم اور زیادتی تھی کہ لوگ عورتوں کا مہر ہڑپ کر جاتے تھے۔ اس کے لیے فرمایا کہ مہر درحقیقت عورت کی ملکیت ہے اس کو خوشدلی کے ساتھ ادا کرو اور اس میں خیانت نہ کرو۔ اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو مال کا ڈھیر بھی دیا ہو تو اس کو زبردستی واپس لینا حرام ہے۔ البتہ اگر خلع کی صورت میں مال دے کر عورت اپنی جان چھڑانا چاہے اور طلاق کا مطالبہ کرے تو اس صورت میں عورت سے مال لینا جائز ہے۔ فرمایا کہ صالح عورتیں وہ ہیں جو شوہر کی عدم موجودگی میں شوہر کی عزت و آبرو ، گھر بار اور مال و دولت کی حفاظت کرتی ہیں اور ذمہ داریوں کو نبھاتی ہیں۔ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت ، فرمانبرداری اور اللہ کا خوف رکھنا سب سے بہتر احسن اور کامیابی کا راستہ ہے۔ باہمی رضا مندی کے بغیر لین دین جائز نہیں ہے اور ناجائز طریقے پر مال کی لوٹ کھسوٹ کو حرام قرار دیا گیا ہے کسی مومن کو ناحق قتل کرنا اور جان بوجھ کر کسی انسان یا جان دار کی جان لینا حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور دنیا سے ظلم و ستم کی حکمرانی کو مٹانے کیلئے جہاد کی ترغیب اور تیاری کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کی ذات اور صفات میں کسی طرح کا بھی شرک کرنا ایک ایسا ظلم ہے جب تک اس سے توبہ نہ کرلے اس وقت تک اسکی معافی نہیں ہے عیسائیوں اور یہودیوں کے غلط عقیدوں اور رسموں کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے اور اہل ایمان کو غلط اور بری رسموں سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ مومنوں سے فرمایا کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق اپنے عقیدے کو درست رکھیں۔ نماز ایک اہم ترین عبادت اور اسلام کی بنیاد ہے نماز کے وقت اللہ کا خوف دامن گیر رہنا چاہیے کیونکہ جو لوگ اللہ کے خوف اور نیکیوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں دنیا اور آخرت کی کامیابیاں ان ہی کے قدم چومتی ہیں۔
Top