تعارف
سورة نمبر ٥۔ رکوع ١٦۔ آیات ١٢٠۔ الفاظ وکلمات ٢٨٤٢۔ حروف ١٣٤٦٤۔ مقام نزول۔ مدینہ منورہ۔ کچھ آیات مکہ مکرمہ میں بھی نازل ہوئی۔
آخری سورت۔ قرآن کریم کے تفصیلی احکامات کی یہ آخری سورت ہے۔
خصوصیت۔ علماء نے فرمایا، کہ اس سورت میں سب سے زیادہ احکامات بیان کیے گئے ہیں۔
تکمیل دین۔ اس میں آیت ، الیوم اکملت لکم دینکم، نازل ہوئی، جس میں دین اسلام کے مکمل ہونے کی بشارت دی گئی۔
تعارف سورة المائدۃ
اس سورة کے پندرھویں رکوع میں لفظ مائدہ آیا ہے اسی لئے اس سورة نام مائدہ رکھا گیا ہے۔ مائدہ۔ ۔ کھانوں سے سجے ہوئے دسترخوان کو کہتے ہیں جس پر مختلف کھانے پینے کی چیزیں موجود ہیں۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے لوگوں نے کھانوں سے سجے ہوئے دسترخوان کی درخواست کی جوا ن پر آسمان سے نازل ہوا اور ان کیلئے اور ان کے اگلے پچھلوں کے لئے خوشی اور عید کا موقع قرار پائے۔ چناچہ حضرت عمار بن یاسر (رض) سے منقول ہے کہ ” روٹی اور گوشت سے بھرا ہوا دسترخوان نازل کیا گیا “ مگر ایمان نہ لانے والے پھر بھی ایمان نہ لائے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سورة مائدہ ان سورتوں میں سے ہے جو آخر میں نازل کی گئی اس میں جو چیزیں حلال کردی گئیں ان کو حلال سمجھو اور جو چیزیں حرام کردی گئی ہیں ان کو حرام سمجھو “ ۔ (روح المعانی) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا : سورة مائدہ ان سورتوں میں سے ہے جو آخر میں نازل ہوئی اس میں تم جن چیزوں کو حلال پاؤ ان کو حلال سمجھو اور جن چیزوں کو حرام کیا گیا ہے ان کو حرام سمجھو۔ (مستدرک حاکم) ۔
حضرت عبد اللہ ابن عمر (رض) نے روایت کرتے ہوئے فرمایا : سورة مائدہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ سفر میں عضبا نام کی اونٹنی پر سوار تھے۔ وحی کے بوجھ سے جب اونٹنی کی ہڈیاں چٹخنے لگیں اور اونٹنی اس بوجھ کو اٹھانے سے بےبس ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹنی سے نیچے اتر آئے۔ یہ سفر بظاہر حجۃ الوداع کا سفر تھا جو 10 ھ میں پیش آیا اس کے بعد آپ اس دنیاوی زندگی میں اسی (80) دن حیات رہے۔ اس سورة میں جتنے مسائل بیان کیے گئے ہیں کسی دوسری سورة میں شاید اس سے زیادہ بیان نہیں کئے گئے۔ اس میں تہذیب و تمدن ، معاشرت اور معیشت وغیرہ کے بیشتر اصولوں کو بیان کیا گیا ہے۔ معاہدات اور وعدوں کی پابندی ، کھانے پینے کی چیزوں میں حرام و حلال کی حدیں، شراب کی حرمت، وضو غسل، تیمم، معاہدہ نکاح، تجارتی معاملات اور لین دین کے احکامات وغیرہ کو تفصیل سے ذکر فرمایا گیا ہے۔ اگرچہ تمام جزیرۃ العرب پر مسلمانوں کو مکمل فتح حاصل ہوچکی تھی اور ان کا مکمل غلبہ تھا لیکن پھر بھی اہل کفر کو ایک دفعہ ایمان کی طرف دعوت دی گئی ہے تاکہ ان کو سنبھلنے کا جو آخری موقع دیا گیا ہے اگر وہ چاہیں تو سنبھل کر دین اسلام کی نعمت سے مالا مال ہوجائیں۔