تعارف
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ تعالیٰ نے دنیا کی چار بڑی قوموں کا ذکر کیا۔ قوم نوح، قوم فرعون، قوم عاد اور قوم ثمود۔ یہ دنیا کی بہت بڑی اور دولتمند قومیں تھیں جب انہوں نے اللہ کی نافرمانیوں کی انتہا کردی تو ان پر اللہ کا ایسا عذاب آیا جس نے ان کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔
٭… اس سورة کی ابتداء گرد و غبار اڑانے والی، بادلوں کے بوجھ کو لے کر چلنے والی ہواؤں، نرم رفتار سے چلنے والی کشتیوں اور رزق تقسیم کرنے والے فرشتوں کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ جس قیامت کے دن کا وعدہ کیا گیا ہے وہ واقع ہو کر رہے گا۔ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دراصل یہ ان منکروں کے جواب میں قسم کھائی گئی ہے جو یہ کہتے تھے کہ آخر وہ قیامت جس کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے کب واقع ہوگی ؟ اللہ نے فرمایا کہ یہ قیامت تو ضرور آئے گی لیکن قیامت کا دن کافروں اور مشرکوں کے لئے بڑا بھاری دن ہوگا۔ اس دن مجرم آگے پرتپائے جائیں گیا ور ان سے کہا جائے گا کہ جس قیامت کی تم جلدی کیا کرتے تھے یہی وہ قیامت کا دن ہے۔ اب تم اپنے اعمال کی سزا بھگتو جو تم دنیا میں کیا کرتے تھے۔
٭… لیکن یہ دن ان اہل ایمان لوگوں کیلئے جو پوری زندگی تقویٰ اور پرہیز گاری کے ساتھ زندگی گزارا کرتے تھے بےانتہا انعام و کرم کا دن ہوگا۔ ان کو جنت کے سرسبز و شاداب باغات، بہتے ہوئے پانی کے صاف شفاف چشمے اور ہر طرح کی نعمتیں عطا کی جائیں گی۔ یہ ان لوگوں کی نیکیوں کا بدلہ ہوگا جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ کی عبادت و بندگی کرتے تھے جو راتوں کے اکثر حصے میں عبادت کرنے کے باوجود اللہ سے ڈرتے ہوئے استغفار کرتے تھے۔ ان کے اعمال کی بلندی کا یہ حال ہے کہ ان کے مال ہر اس شخص کیلئے وقف تھے جو ان سے سوال کرتے تھے یا سوال نہیں کرتے تھے۔
٭… اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں وہ اگر اپنے وجود ہی میں غور کرلیں تو ان کو اس کا جواب مل جائے گا۔ ہر آدمی رات کو سوتا ہے اور
اللہ کا یہی دستور ہے کہ جب قومیں نافرمانیوں کی انتہا پر پہنچ جاتی ہیں اور بار بار کہنے کے باوجود اپنی اصلاح نہیں کرتیں تو پھر ان پر اللہ کا فیصلہ آجاتا ہے اور پھر وہ قومیں طاقت و قوت کے باوجود اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتیں اور تباہ ہوجاتی ہیں۔
کفار و مشرکین کے اعتراضات، طعنے اور الزامات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی باتوں کی پرواہ نہ کیجیے صبر کیجیے کیونکہ جب بھی اللہ کے نبیوں اور رسولوں نے لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچایا تو انہوں نے ان کو اسی طرح ستایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو نصیحت کرتے رہیے جس کے مقدر میں یہ سعادت ہے وہ ضرور حاصل کر کے رہے گا۔
صبح کو اٹھ جاتا ہے۔ رات کو سونا گویا موت کا طاری ہونا ہے اور سو کر اٹھنا دوبارہ زندگی ہونا ہے۔ موت اور حیات تو اس پر روزانہ طاری ہوتی ہے۔ اسی طرح جو شخص مر گیا اس سے قبر میں چند سوالات کے بعد اس پر نیند طاری کردی جائے گی اور اب اس کی آنکھ میدان حشر میں کھلے گی جہاں زندگی بھر کے معاملات کا فیصلہ کیا جائے گا۔
٭… اس سورة میں حضرت ابراہیم کے اس واقعہ کو بیان فرمایا گیا جب اللہ نے کچھ فرشتوں کو انسانی شکل میں حضرت ابراہیم کے پاس بھیجا۔ انہوں نے حضرت ابراہیم کو ایک بیٹے کی خوش خبری سنائی اور قوم لوط پر ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے عذاب کا ذکر کیا۔ جب حضرت ابراہیم نے ان سے پوچھا کہ اب ان کا کیا ارادہ ہے تو انہوں نے کہا کہ ہمیں اللہ کی طرف سے حکم ہے کہ قوم لوط پر بارش کی طرح پتھر برسا کر ان کو تباہ کردیا جائے۔
٭… قوم فرعون، قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر فرمایا کہ جب انہوں نے اپنی نافرمانیوں کی انتہا کردی تب اللہ نے فرعون اور اس کی قوم کو پانی میں غرق کردیا۔ قوم عد کو طوفانی آندھی سے اور قوم ثمود کو ہوا اور زلزلوں کے جھٹکوں سے اور قوم نوح کو سمندری طوفان میں ڈبو کر ہلاک کیا گیا۔ گویا انہوں نے تو پہلے ہی قیامت کا منظر دیکھ لیا۔ اسی طرح ایک وقت آئے گا جب اس ساری کائنات کو اسی طرح ختم کردیا جائے گا اسی کو قیامت کہتے ہیں۔
٭… فرمایا کہ اس کائنات میں جس اللہ نے آسمان کو چھت کی طرح تان دیا اور زمین کے فرش کو خوبصورتی سے بچھا دیا جس سے انسانی ضروریات پوری ہوتی ہیں وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں ہے۔ دنیا جب بھی کائنات کے مالک کے ساتھ کسی طرح کا بھی شرک کیا گیا تو ان کی اصلاح کے لئے پیغمبر بھیجے گئے جب کفار اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے تو ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو کر رہا۔
٭… کفار قریش نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طعنے دیتے اور الزامات لگاتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون اور جادوگر کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ کوئی ایسی نئی بات نہیں ہے کہ جو کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کر رہے ہیں بلکہ اللہ کے جتنے بھی نبی اور رسول آئے ان کے ساتھ ان کی قوم نے یہی معاملہ کیا لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان منکرین و مشرکین کی پرواہ نہ کیجیے کیونکہ یہ لوگ گمراہی میں بھٹک رہے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی باتوں پر صبر کیجیے اور ان کو نصیحت کرتے رہیے جن لوگوں کے دلوں میں خوف الٰہی ہے وہ ضرور ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات مان کر نجات کا راستہ حاصل کرلیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے انسانوں اور جنات کو اپنی عبادت و بندگی کے لئے پیدا کیا ہے۔ لیکن یہ عبادت ان کے اپنے فائدے کے لئے ہے اللہ ہر ایک کی عبادت سے بےنیاز ہے۔ اگر ساری دنیا مل کر اس کی نافرمانی کرتی ہے تب اور فرمانبرداری کرتی ہے اس وقت نہ اس کی کائنات میں کوئی چیز کم ہوتی ہے اور نہ کوئی چیز بڑھتی ہے یہ تو انسان کی اپنی سعادت کی بات ہے۔
فرمایا کہ درحقیقت وہ بڑے ظالم ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت و بندگی کرتے ہیں۔ قیامت کے دن ان کو سخت سزا مل کر رہے گی۔ قیامت کا دن ان لوگوں کے لئے بڑا ہولناک دن ہوگا۔