بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ الطور - تعارف
تعارف
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ٭… اس سورة میں کوہ طور، کشادہ ورقوں میں لکھی گئی کتاب، بیت معمور، اونچی چھت (آسمان) اور موجیں مارتے سمندر کی قسم کھا کر فرمایا گیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے پروردگار کا عذاب (ان کافروں پر ) واقع ہو کر رہے گا جسے کوئی ٹال نہ سکے گا۔ یہ وہ دن ہوگا جب آسمان تھرتھرا جائے گا، پہاڑا اڑے پھریں گے۔ یہ دن اللہ کے دین کو جھٹلانے والوں کے لئے بڑا سخت دن ہوگا جو اس سچے دین کو کھیل بنائے ہوئے ہیں۔ جب انہیں دھکے دے کر جہنم کی طرف لے جاتے ہوئے کہا جائے گا کہ یہی وہ آگ ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ یہ جادو ہے ؟ یا تمہیں دیکھ کر بھی نظر نہیں آ رہا ؟ ان کو اسی جہنم میں داخل کرتے ہوئے ان سے کہا جائے گا اس جہنم میں تم چلا ئو یا صبر کرو دونوں برابر ہیں کیونکہ یہ تمہارے ان اعمال کے بدلے میں دی گئی ہے جو تم دنیا میں کرتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا کہ کفار کی طرف سے اسی طرح مذاق اڑایا جاتا رہے گا لیکن آپ ان کی پرواہ نہ کیجیے کیونکہ آپ براہ راست اللہ کی نگرانی میں ہیں۔ آپ کا یہ سب مل کر بھی کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔ آپ صبر و تحمل اور برداشت سے کام لے کر اپنے مشن اور مقصد کو آگے بڑھاتے رہیے اور دلی سکون حاصل کرنے کے لئے صبح و شام اور رات کے آخری حصے میں اللہ کی حمد و ثنا کیجیے۔ ٭… اس ہولناک دن میں سب ایک ہی حالت میں نہ ہوں گے بلکہ جن لوگوں نے دنیا میں تقویٰ ، پرہیز گاری اور نیکی کے ساتھ زندگی گزاری ہوگی ان کو جنت میں داخل کیا جائے گا جہاں وہ ان تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے جو ان کا رب انہیں عطا فرمائے گا اور ان کو جہنم کی آگ سے محفوظ رکھے گا۔ ان سے کہا جائے گا کہ خوب کھائو اور پیو یہ تمہارے ان کاموں کا بدلہ ہے جو تم کرتے رہے تھے۔ وہ لوگ جنت میں بچھے ہوئے تخت اور مسہریوں پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ خوبصورت اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ان کے نکاح کردیئے جائیں گے اور ان کی وہ اولادیں اور گھرو الے جو صاحبان ایمان ہوں گے ان کو جنت کے نچلے طبقے سے اعلیٰ ترین جنتوں میں لا کر آپس میں ملا دیا جائیگا اور وہ ان کے ساتھ ہی رہیں گے۔ ان کو ہر طرح کے پھل اور پرندوں کا بہترین گوشت اور دوسری نعمتیں عطا کی جائیں گی۔ وہ ایک دوسرے سے بےتکلفی کے انداز میں شراب کے جام پر چھینا جھپٹی کر رہے ہوں گے۔ وہاں وہ کسی قسم کے لغو اور فضول باتوں کو نہس نیں گے اور نہ کسی طرح کی بدکاریوں کو دیکھیں گے۔ ان کی خدمت کے لئے وہ لڑ کے بھاگ دوڑ کر رہے ہوں گے جو پوری جنت میں قیمتی موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہوں گے۔ یہ لوگ آپس میں ایک دور سے سے دنیا میں گزرے ہوئے حالات کو پوچھیں گے اور کہیں گے کہ ہم تو اپنے گھروں میں ڈرتے ہوئے زندگی گزار رہے تھے لیکن یہ اللہ کا کتنا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں خوف سے نجات عطا فرما کر ہم پر اپنی رحمتیں نازل فرما دی ہیں اور ہمیں اس جہنم کی آگ سے بچا لیا جو جھلسا کر رکھ دینے والی ہے۔ یہ سب کا سب اللہ کا فضل و احسان ہے۔ فرمایا کہ یہ کفار نہایت بےعقل اور ناسمجھ ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قرآن کو خود سے گھڑ لیا ہے۔ حالانکہ اللہ نے ساری دنیا کو اس بات کا چیلنج دیا ہے کہ اگر کسی کو قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے پر ذرا بھی شک و شبہ ہے تو وہ سب مل کر قرآن کریم کی ایک سورت ہی بنا کرلے آئیں۔ لیکن وہ ہزاروں مخالفتوں کے باوجود بھی قرآن کریم جیسا کلام بنا کر نہ لاسکے جو خود اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اور یہ کوئی انسان کلام نہیں ہے۔ ٭… کفار قریش نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی کاہن ، کبھی شاعر اور کبھی مجنوں کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ہمارے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے فضل و کرم سے نہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاہن ہیں نہ مجنون اور نہ شاعر بلکہ یہ لوگ آپ کے لئے برے دنوں کے منتظر ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ تم انتظار کرو میں بھی تمہارے انجام کا انتظار کر رہا ہوں۔ فرمایا کہ یہ کفار کس قدر بےعقل لوگ ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی میں اس بات کو بھول گئے کہ قرآن کریم اللہ کا وہ کلام ہے جو ہر ایک کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر کسی کو ذرا بھی شک ہے کہ یہ لوگ کا کلام نہیں ہے تو وہ اس جیسا کلام لے کر آجائے مگر ان سچائیوں کو جانتے ہوئے بھی وہ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قرآن کو خود سے گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے۔ یہ درحقیقت ایمان لانے سے بھاگنے کے بہانے اور ان کی بےعقلی کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان جیسے لوگوں سے آٹھ سوالات کئے ہیں۔ (١) کیا یہ لوگ خود اپنے خلاق ہیں یا اپنی مرضی سے پیدا کئے گئے ہیں اور خود ہی اپنے آپ کو پیدا کرنے والے ہیں ؟ (٢) کیا زمین و آسمان کو انہوں نے پیدا کیا ہے ؟ (٣) کیا ان کے پاس خزانے ہیں جن پر ان کا حکم چلتا ہے ؟ (٤) کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر وہ غیب کی خبریں لے کر آتے ہیں ؟ کیا ان کیپ اس اس کی کوئی مضبوط دلیل ہے ؟ (٥) کیا یہ لوگ اللہ کے لئے تو (فرشتوں کو) بیٹیاں تجویز کرتے ہیں اور خود بیٹوں کو پسند کرتے ہیں ؟ (٦) اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ ان سے تبلیغ دین پر کوئی معاوضہ ، صہلہ یا بدلہ مانگ رہے ہیں کہ اس کے بوجھ تلے یہ لوگ دبے جا رہے ہیں ؟ (٧) کیا اللہ کے سوا دوسرا کوئی معبود ہے جس کی یہ عبادت و بندگی کرتے ہیں اور دوسروں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں ؟ (٨) کیا ان کے پاس غیب سے لکھی لکھائی کوئی کتاب ہے جسے پڑھ کر یہ اس پر عمل کرتے ہیں ؟ یقینا نہ تو یہ خود اپنے خلاق ہیں نہ انہوں نے زمین و آسمان کو پیدا کیا نہ ان کے پاس خزانے ہیں نہ وہ سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر وہ عالم بالا کی خبریں لاتے ہیں۔ نہ فرشتے اللہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ نہ اللہ کے سوا دوسرا کوئی معبود ہے۔ نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کسی صلے یا بدلے کی خواہش کرتے ہیں نہ ان کے پاس کوئی لکھی لکھائی کتاب ہے۔ یہ سب باتیں دراصل ایمان سے بھاگنے کی کوششیں ہیں۔ فرمایا کہ ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ اگر آسمان کے کسی ٹکڑے کو گرتے دیکھیں تو یہی کہیں گے کہ شاید کوئی گہرا بادل امڈا چلا آ رہا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیے یہاں تک کہ یہ اس دن میں پہنچ جائیں گے جہاں نہ کوئی ان کے کسی کام آسکے گا اور نہ کسی طرح سے ان کی مدد کی جائے گی اور عذاب الٰہی ان پر چھا جائے گا۔ یہ فیصلہ کا دن ہوگا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر و برداشت سے کام لیجیے اور اپنے مقصد کو جاری رکھیے۔ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہر طرح کی دشمین کرسکتے ہیں مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے کیونکہ آپ براہ راست ہماری نگرانی میں ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دلی سکون حاصل کرنے کے لئے صبح و شام اور رات کے آخری حصے میں اللہ کی حمد وثناء کیجیے اسی میں سکون قلب کی دولت نصیب ہوتی ہے۔
Top