بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ النجم - تعارف
تعارف
ایک مرتبہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ کے مجمع میں سورة النجم کی تلاوت فرمائی تو اس وقت اہل ایمان کے ساتھ ساتھ کافر و مشرک سب ہی موجود تھے۔ جب سجدہ کی ایٓت آئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاں نثار صحابہ کرام نے تو سجدہ کیا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس وقت جتنے بھی لوگ موجود تھے وہ سب بھی سجدے میں گر گئے اور قریش کے بڑے بڑے سردار اور مخالفین سجدہ کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس سورة کا خلاصہ یہ ہے۔ ستارہ جب غائب ہوجاتا ہے اس کی قسم کھا کر فرمایا کہ تمہارے یہ رفیق (ساتھی) جو ہمیشہ تمہارے سامنے ہیں یہ اللہ کا پیغام پہنچانے میں راہ حق سے نہ بھٹکے اور نہ انہوں نے کوئی غلط راستہ اختیار کیا ہے۔ آپ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برحق ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی بات اپنی ذاتی خواہش سے بیان نہیں کرتے بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جو وحی نازل ہوتی ہے آپ اس کو بیان کردیتے ہیں۔ طاقت و قوت والا ہے۔ وہ ایک مرتبہ اپنی اصلی صورت پر سامنے آیا جب کہ وہ آسمان کے کنارے پر تھا۔ (جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس فرشتے کو دیکھ کر بےہوش ہوگئے تو) وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت زیادہ قریب آیا اتنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور اس کے درمیان دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ پھر اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جس قدر وحی بھیجنا چاہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کو بھیجا۔ نظر نے جو کچھ دیکھا تھا دل نے اس میں کسی جھوٹ کو نہ ملایا تھا ۔ کیا تم لوگ انسے اس بات میں جھگڑ رہے ہو، جس کو انہوں نے آنکھ سے دیکھا تھا۔ لات منات، اور عزیٰ وہ بہت ہیں جو عورتوں کے نام ہیں جو کفار کے بڑوں نے اس تصور کے ساتھ نام رکھے تھے کہ نعوذ باللہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور دو بیٹیاں قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں ان کی سفارش کر کے ان کو جہنم کے عذاب سے نجات دلوا دیں گی۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ کیسی بےڈھگنی اور ظالمانہ تقسیم ہے کہ خود تو لڑکیوں کو قابل تعریف سمجھتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ان گھروں میں لڑکے پیدا ہوں۔ تم نے اللہ کے لئے فرشتوں کو اس کی لڑکیاں بنا دیا۔ تو یاد رکھو اللہ ان تمام باتوں اور شرک سے پاک ہے۔ قیامت کے ہولناک دن فرشتے تو کیا کسی پیغمبر کو بھی اس وقت تک کسی کی سفارش کا حق نہ ہوگا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت نہ دی جائے۔ سفارش اسی کی ہوگی جس کے لئے اللہ چاہے گا۔ زمین و آسمان اور ساری کائنات میں سارا اختیار اللہ کا ہے جو جیسا عمل کرے گا اس کو ایسا ہی بدلہ دیا جائے گا۔ اگر کوئی برے راستے کا انتخاب کرکے اس پر عمل کرے گا تو اس کو سخت سزا دی جائے گی اور اگر کسی نے نیک اور بہتر راستے اختیار کر کے نیک عمل کیا ہوگا تو اس کو اللہ تعالیٰ بہترین بدلہ اور جزا عطا فرمائیں گے۔ اور ایک مرتبہ پھر انہوں نے اس کو (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل کو) سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا۔ جس کے پاس ہی ” جنت الماوی “ ہے اس وقت اس پیروی کے درخت (سدرۃ المنتہی) پر ہو طرف اللہ کے انورات اور فرشتے چھائے ہوئے تھے۔ یہ سب کچھ دیکھنے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نہ تو نظر بہکی اور نہ وہ حد سے آگے بڑھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں کو دیکھا۔ فرمایا کیا تم نے کبھی لات عزیٰ اور ایک تیسری بت منات پر بھی غور کیا ہے ؟ وہ کیا ہیں ؟ اور ان کی حقیقت کیا ہے ؟ وہ کچھ عورتوں کے نام ہیں جن پر ان بتوں کے نام رکھ لئے گئے ہیں کیونکہ تمہارا گمان یہ ہے کے فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور یہ تصویریں ان ہی کی ہیں۔ فرمایا کس قدر بےڈھنگی تقسیم ہے کہ تم اپنے گھروں میں بیٹیاں پیدا ہونے کے بعد شرمندگی سے منہ چھپاتے پھرتے ہو اور لڑکیوں کے وجود کو نفرت دیکھتے ہو۔ تم نے اللہ کے لئے تو بیٹیوں کو پسند کیا اور خود تم چاہتے ہو کہ تمہارے گھروں میں لڑکے ہوں یہ کیسی ظالمانہ تقسیم ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں تصور کرنا او ان ہی پر تصور بنا کر ان کی عبادت و پرستش کرنا اور یہ سمجھنا کہ قیامت میں یہ فرشتے (جن کو وہ اللہ کی بیٹیاں سمجھنے تھے) ان کی سفارش کر کے ان کو عذاب الٰہی سے بچا لیں گے یہ انکا محض وہم اور گمان ہے جس کی وہ عبادت زندگی میں کر رہے ہیں۔ یہ محض ان کی طرف سے گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔ ان کا گمان ہے جس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ فرمایا کہ فرشتے نہیں بلکہ کوئی بھی اس کی بارگاہ میں کسی کی سفارش اور شفاعت نہیں کرسکتا جب تک اس کو سفاشر کرنے کی اجازت نہ ہو وہ اس کے پسند کرے۔ دنیا اور آخرت کا مالک اللہ ہے اس کے سوا مالک نہیں۔ فرمایا کہ لات، منات اور عزیٰ یہ بتوں کے وہ نام ہیں جو ان کے باپ دادا نے رکھ لیے تھے۔ یہ ان کی اپنی خواہشات تھیں جن کی انہوں نے پیروی کی ورنہ اللہ نے ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں بھیجی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان کے پاس اس کی کوئی سند یا دلیل نہیں ہے بلکہ یہ ان کا محض خیال اور گمان ہے۔ درحقیقت کسی کا گمان حق کی جگہ نہیں لے سکتا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ ہمارے ذکر سیم نہ پھیر کر چل رہے ہیں اور انہیں دنیا کے سوا کچھ نہیں چاہئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیے کیونکہ ان کے علم کی انتہا بس یہیں تک ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پروردگار اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کے راستے سے کون بھٹک گیا ہے اور کون سیدھے راستے پر ہے۔ فرمایا زمین و آسمان میں سارا اختیار اللہ ہی کا ہے۔ جس نے بھی برے راستے کا انتخاب کیا وہ اس کو اس کی سزا دے گا اور جن لوگوں نے بہترین اور نیک راستے کا انتخاب کر کے اس پر قدم بڑھائے ہوں گے ان کو بہترین جزا اور بدلہ دیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے بچ کر چلتے ہیں۔ اگر ان سے کوئی ہلکا پھلکا گناہ ہوجائے تو آپ کے پروردگار کا دامن رحمت بہت وسیع ہے۔ وہ اللہ تمہاری کمزوریوں اور خوبیوں سے اچھی طرح واقف ہے اس وقت سے وہ تمہیں جانتا ہے جب تمہیں مٹی سے پیدا کر کے ماں کے پیٹ میں تم نے ایک بچے کی شکل اختیار کی تھی۔ تم اپنے نفس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو وہ جانتا ہے کون متقی اور پرہیز گار ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی اس شخص کے حالات پر بھی غور کیا جو اللہ کے راستے سے بھٹک گیا۔ کچھ خرچ کیا اور کہیں وہ رک گیا۔ کیا اس کے پاس کوئی غیب کا علم ہے کہ اس نے ہر حقیقت کو دیکھ لیا ہے۔ کیا اسے اس صحیفوں صکتابوں) کی خبر ملی ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم کے پاس تھیں۔ وہ ابراہیم جنہوں نے وفا کا حق ادا کردیا تھا۔ ان صحیفوں میں لکھا ہوا ہے کہ (١) کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ (٢) انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کیلئے وہ جدوجہد کرتا ہے۔ (٣) اس کی جدوجہد اللہ کی نظر میں ہے وہ ہر ایک کو اس کا بدلہ دے گا۔ (٤) یہ کہ آخر کار تمہیں اللہ ہی کی طرف لوٹ کرجاتا ہے۔ (٥) وہی ہنساتا ہے وہی رلاتا ہے۔ (٦) زندگی اور موت اسی کے ہاتھ میں ہے۔ (٧) اس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا جب کہ اس ایک بوند سے جو ٹپکائی گئی (اسی سے اس کا وجود ہے۔ ) (٨) مرنے کے بعد دوبارہ زنگدی دینا بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ (٩) وہی مال اور جائیداد عطا کرتا ہے۔ (١٠) وہی اس ستارے ” شعری “ کا رب ہے (جس کو تم پوجتے ہو) ۔ (١١) اسی نے قوم عاد یعنی عاد اولیٰ کو ہلاک کیا۔ (١٢) اور اسی نے ثمود کو اس طرح منایا کہ کسی کو باقی نہ چھوڑا۔ (١٣) اور اسی نے قوم نوح کو جو بڑے ظالم اور سرکش تھے تباہ کیا۔ (١٤) اوندھی گری ہوئی بستیوں کو (قوم لوط) کو اٹھا پھینکا ۔ (١٥) پھر ان بستیوں کو گھیر لیا جس چیز نے یعنی ان پر عذاب آ کر رہا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے مخاطب ! تو اپنے رب کی کن نعمتوں میں شک و شبہ کرے گا۔ فرمایا کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پہلے پیغمبروں کی طرح ایک پیغام پر ہیں (ان کو مان لو) کیونکہ وہ جلدی آنے والی چیز (قیامت) بہت قریب آپہنچی۔ کیا تم یہ سب باتیں سن کر بھی کلام الٰہی میں تعجب کرتے ہو۔ تم ہنستے ہو مذاق اڑاتے ہو (اور اپنے برے انجام پر) روتے نہیں ہو اور تم غرور وتکبر کرتے ہو۔ اب بھی وقت ہے کہ تم اللہ کی اطاعت کرو اور اسی کی عبادت کرو۔
Top