تعارف
٭… جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی صفت ” رحمن “ کا ذکر فرماتے تو کفار مکہ یہ کہتے تھے کہ کون رحمٰن ؟ ہم نہیں جانتے کہ رحمٰن کون ہے اور یہ کیا بات ہوئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی تو کہتے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہ کرو اور کبھی رحمٰن کا ذکر کرتے ہیں۔ کیا ہم اسی کو سجدہ کریں گے جس کے متعلق تم بیان کرتے رہو گے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورة رحمٰن کو نازل فرمایا اور بتایا کہ اللہ اور رحمٰن دو نہیں بلکہ لفظ اللہ اس کا اسم ذات ہے اور رحمٰن اس کا صفاتی نام ہے جس کے معنی نہایت رحم کرنے والے کے آتے ہیں۔
فرمایا رحمٰن وہ ہے جس نے قرآن کریم کی تعلیم دی۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسی نے اس کو بولنے کی صلاحیت اور طاقت عطا فرمائی ہے۔ اسی نے چاند اور سورج کو ایک خاص نظام کے تحت حساب اور تو ازن سے قائم کر رکھا ہے۔ ستارے ہوں یا درخت ہر ایک اسی رحمٰن کے سامنے سجدہ کر رہے ہیں۔ اسی نے آسمان کو بلند کر کے اس میں ایک تو ازن پیدا کیا۔ اللہ نے فرمایا کہ اے لوگو ! تم بھی اس میزان میں خلل نہ ڈالو۔ تم اعم زندگی کے لین دین میں ٹھیک ٹھیک تولو اور ماپ تول میں کسی طرح کی کمی نہ کرو۔
اس رحمٰن نے زمین کو ساری مخلوق کے لئے بنایا ہے۔ آدمی کے لئے غلافوں میں لپٹے ہوئے پھل اور کھجوریں پیدا کیں۔ طرح طرح کے غلے پیدا کیں۔ طرح طرح کے غلے پیدا کئے اور اسی میں جانوروں کی غذا بھوسہ بھی پیدا فرمایا۔
اسی رحمٰن نے دو دریاؤں کو اس طرح بنایا کہ وہ آپس میں ملے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان ایک پردہ اور آڑ بنا دی جس سے وہ آپس میں نہیں ملتے۔
اسی نے سمندر سے اور دریاؤں سے متوی اور مونگے نکالے۔ اسی رحمٰن کے اختیار میں وہ اونچے اونچے جہاز ہیں جو پہاڑوں کی طرح سمندر میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس دنیا میں سوائے
ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة رحمن کی تلاوت فرمائی تو صحابہ نے نہایت ادب اور خاموشی سے اس سورة کو سنا۔ آپ نے فرمایا کہ تم سے اچھے تو جنات ہی رے جب میں نے ان کے سامنے اس سورة کی تلاوت کی اور جب یہ آیت آتی ” فبای الائ “ ربکما تکذبان ‘ ذ تو وہ کہتے ” لابشیء من نعمک ربنا تکذب فلک الحمد “
علماء نے فرمایا ہے کہ سنت یہ ہے کہ جب بھی سورة رحمٰن میں یہ آیت آئے تو اس پر اسی طرح اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے جس طرح جنات نے ادا کیا تھا۔
اس سورة میں شروع سے آخر تک اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے فضل و کرم اور ہر طرح کی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اکتیس مرتبہ ایک ہی آیت فبای الاء ربکما تکذبان کو دہرایا گیا ہے جس میں اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر جو بیشمار نعمتیں نازل کی ہیں ان کی قدر کر کے ہر آن اس کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ نعمتوں میں اور اضافہ فرما دیتا ہے۔
اللہ رب العالمین کی کریم ذات کے اور کسی چیز کو بقا حاصل نہیں ہے۔ ہر چیز کو ایک دن فنا ہونا ہے۔ زمین و آسمان میں جتنی بھی مخلوقات ہیں اپنی حاجتیں اور ضرورتیں پوری ہونے کے لئے اسی کے آگے سوالی ہیں اسی سے مانگ رہے ہیں۔ اس کی ذات بھی ہر آن کسی نئی شان سے جلوہ گر ہے۔
فرمایا کہ اے انسانوں اور جنتا ہم بہت جلد تم سے حساب لینے ہی والے ہیں۔ اے انسانو ! اور جنات کے گروہو ! اگر تم زمین و آسمان کے کناروں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ کر دیکھ لو۔ اس کے لئے بڑی طاقت و قوت کی ضرورت ہے (جو تمہارے اندر موجود نیں ہے۔ ) فرمایا کہ ہم نے یہ انتظام کر رکھا ہے کہ اگر تم بھاگنے کی کوشش بھی کرو گے تو تمہارے اوپر اس شعلے اور دھوئیں کو چھوڑ دیا جائے گا جس کا تم مقابلہ نہ کرسکو گے۔
فرمایا اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب (اللہ کے خوف سے) آسمان پھٹ کر لال چمڑے کی طرح ہوجائے گا۔ یہ وہ دن ہوگا جس میں کسی انسان یا جن سے اس کے گناہ کے متعلق پوچھنے کی ضرورت ہی نہ ہوگی کیونکہ اس دن وہ اپنی پیشانیوں اور پریشان چہروں سے پہچان لئے جائیں گے۔ اگر وہ ادھر ادھر بھاگنے کی کوشش کریں گے تو اللہ کے فرشتے ان کو پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑ پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے آئیں گے۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہی وہ جہنم ہے جس کو تم زندگی بھر جھٹلاتے رہے۔ وہ جہنم والے اس دن کھولتے ہوئے گرم پانی کے چکر کاٹ رہے ہوں گے۔
اس دن وہ خوش نصیب لوگ بھی ہوں گے جو زندگی بھر اللہ کا خوف رکھتے ہوئے اپنے اعمال سر انجام دیتے تھے۔ ان کے لئے دو باغ ہوں گے۔ ہرے بھرے خوبصورت اور ان باغوں میں دو ایسے چشمے ہوں گے جو بہہ رہے ہوں گے۔ ان میں ہر طرح کے پھل اور میوے ہوں گے اور وہ بھی دو قسم کے یعنی طرح طرح کے پھل ہوں گے۔ اہل جنت ایسے فرشوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے اور باغوں کی ڈالیاں ان پر جھکی پڑ رہی ہوں گی۔ ان ہی نعمتوں کے درمیان وہ خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والی شرمیلی حوریں ہوں گی جنہیں کبھی کسی انسان یا جن نے ہاتھ تک نہ لگایا ہوگا۔ ان ہی نعمتوں کے درمیان وہ خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والی شرمیلی حوریں ہوں گی جنہیں کبھی کسی انسان یا جن نے ہاتھ تک نہ لگایا ہوگا۔ ایسی حسین و جمیل جیسے ہیرے موتی، ان نیکو کاروں کا بدلہ تو یہی ہو سکتا ہے۔
فرمایا کہ ان دو باغوں کے علاوہ دو باغ اور بھی ہوں گے گھنے سرسبز و شاداب، ان جنتوں میں ابلتے ہئوے فوارے کی طرح پانی کے دو چشمے ہوں گے۔ کثرت سے پھل، کھجوریں اور انار ہوں گے۔ خوبصورت اور خوب سیرت بیویاں ہوں گی، خیموں میں ٹھہرائی ہوئی حوریں جنہیں کسی انسان یا جن نے اس سے پہلے ہاتھ تک نہ لگایا ہوگا۔ وہ جنتی سبز قالینوں اور حسین و جمیل فرشوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ بلاشک و شبہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے پروردگار کا نام بڑی برکت والا ہے جو بڑی عظمتوں والا اور کرم کرنے والا ہے۔
اس سورة میں شروع سے آخر تک اللہ تعالیٰ کی رحمت، اس کے فضل و کرم اور ہر طرح کی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور ایک ہی آیت کو اکتیس مرتبہ دہرا کر پوچھا ہے کہ انسانو ! اور جنات تم پر اللہ کی اتنی زیادہ نعمتیں ہیں کہ تم ان کا شکر ادا کرنا تو بڑی بات ہے تم ان کو شمار بھی نہیں کرسکتے کیا تم اس کی نعمتوں کا انکار کرسکتے ہو۔ ہر انصاف پسند شخص کی زبان سے یہی الفاظ ادا ہوں گے الٰہی ! ہم آپ کی کسی نعمت کا بھی انکار نہیں کرسکتے۔
حضرت جابر سے رویات ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن سورة رحمٰن کی تلاوت فرمائی تو صحابہ کرام جو ادب و احترام کا پیکر تھے وہ اس سورة کو بڑے احترام سے سنتے رہے اور خاموش رہے۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم سے تو جنات ہی اچھے رہے۔ جب ان کے سامنے میں نے سورة رحمٰن کی تلاوت کی اور یہ آیت آئی ” فبای الاء ربکما تکذبان “ تو وہ جنتا کہتے جاتے تھے کہ ” لا بشیء من نعمک ربنا تکذب فلک الحمد “ یعنی اے ہمارے رب ہم آپ کی نعمتوں میں سے کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے تمام تعریفیں آپ ہی کے لئے ہیں۔
علماء نے فرمایا کہ جب بھی آدمی اس سورة کو پڑھے یا (نماز با جماعت کے علاوہ ) کسی سے سنے تو اس وقت اس دعا کو پڑھنا سنت ہے۔