بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ الحشر - تعارف
تعارف
تعارف سورة الحشر سورة نمبر 59 کل رکوع 3 آیات 24 الفاظ و کلمات 455 حروف 2016 مقام نزول مدینہ منورہ مال غنیمت یہ ہے کہ جنگ میں جو کچھ ہاتھ آئے اس کو ایک جگہ کرکے اس کے پانچ حصے کیے جائیں۔ چار حصے جنگ میں حصہ لینے والوں میں تقسیم کر دئیے جائیں اور پانچواں حصہ بیت المال کو جمع کردیا جائے تاکہ مملکت کے ضروری کام نمٹائے جاسکیں۔ مال فے دشمن سے حاصل ہونے والا وہ مال ہے جو بغیر جنگ کے ہاتھ آئے۔ اس کے لئے اللہ نے فرمایا کہ مال فے کو فوج میں تقسیم نہ کیا جائے بلکہ اس کو اللہ و رسول کے لئے مخصوص کردیا جائے تاکہ اس کی تقسیم اس طرح ہو کہ کوئی بھی اس سے محروم نہ رہے۔ بنو نضیر سے چونکہ جنگ نہیں ہوئی تھی اس لئے اس کو مال فے قرار دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ مال و دولت سب اسی دنیا میں رہ جائے گا۔ اصل چیز یہ ہے کہ آنے والے کل کی فکر کی جائے کہ کس نے اپنے آگے کیا بھیجا ہے کیونکہ جو کچھ اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے خرچ کیا ہے وہی قیامت کے دن اس کے کام آئے گا اور باقی سب کچھ اسی دنیا میں رہ جائے گا۔ مدینہ منورہ میں بنو نضیر کی شرارتوں اور میثاق مدینہ کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزیوں کی وجہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نصیر کو دس دن کے اندر اندر یہ شہر چھوڑنے کا نوٹس دے دیا تاکہ ان کو ان کی سازشوں کی سزا دی جاسکے۔ اصل میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں آباد تمام قبیلوں سے ایک معاہدہ امن کیا تھا جس کا بنیادی مقصد آپس میں مل جل کر رہنا اور اگر کوئی بیرونی حملہ یا مداخلت ہو تو سب مل کر اپنے اس شہر کا دفاع کرسکیں۔ ان ہی میں یہودی قبیلہ بنو نضیر سے باقاعدہ تحریری معاہدہ تھا لیکن انہوں نے شروع ہی سے اپنی شرارتوں اور سازشوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ وہ مکہ کے کافروں کو مدینہ منورہ پر حملے پر اکساتے رہتے یہاں تک کہ انہوں نے ایک موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید تک کرنے کی سازش کر ڈالی تھی مگر اللہ کی طرف سے بروقت اطلاع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو نضیر کے قبیلے سے واپس تشریف لے آئے۔ مدینہ منورہ کی بستی سے باہر بنو نضیر کے باقاعدہ بستیاں تھیں جہاں وہ صدیوں سے آباد تھے۔ انہیں اپنے مضبوط قلعے، ہرے بھرے باغات اور اپنی مال و دولت پر بڑا ناز تھا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کو دس دن کا نوٹس دیا تو وہ اڑ گئے۔ ادھر رئیس المنافقین عبد اللہ ابن ابی نے خاموشی کے ساتھ کہلا بھیجا کہ تم اپنی جگہ ڈٹے رہو ڈر نے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں دو ہزار جوانوں کے ساتھ تمہاری طرف سے لڑوں گا اور آس پاس کے دوسرے قبیلے بھی تمہاری مدد کے لئے تیار ہیں۔ بنو نضیر نے اپنے گھمنڈ اور منافقین کے بھروسے پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہلا بھیجا کہ ہم اپنی بستیاں خالی نہ کریں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو کچھ ہوسکتا ہے وہ آپ کرلیجئے۔ بنو نضیر نے مقابلے کی تیاریاں شروع کردیں رکاوٹیں کھڑی کیں اور اپنے قلعوں سے تیر اور پتھر پھینکنے کی جگہوں کا انتخاب کرلیا۔ ادھر دس دن کی مدت گزرتے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) نے اس قدر تیزی سے بنو نضیر کی گڑھیوں اور قلعوں کو گھیر لیا کہ وہ اپنے قلعوں سے سوائے تیر برسانے اور پتھر پھینکنے کے اور کچھ نہ کرسکے اور جن منافقین نے مدد کا وعدہ کیا تھا وہ بھی سب کے سب دبک کر بیٹھ گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یا بعض صحابہ کرام (رض) نے جو آس پاس درخت تھے ان میں سے کچھ کو کاٹ ڈالا تاکہ بنو نضیر اپنی نظروں سے اپنے باغات کی تباہی دیکھ کر مقابلے کے لئے باہر نکلیں مگر وہ دیکھتے رہ گئے اور یہودی اپنے قلعوں اور گڑھیوں سے باہر نہ نکل سکے۔ بنو نضیر نے نہایت بےبسی کے عالم میں مسلمانوں سے صلح پر آمادگی ظاہر کردی اور کہا کہ ہماری جانیں بخش دی جائیں اور ہمیں ہتھیاروں کے سوا جو کچھ لے جاسکتے ہیں وہ لے جانے دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دیدی۔ اس کے بعد انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے بنائے ہوئے مکانات توڑنے شروع کردئیے تاکہ مسلمان ان کو استعمال نہ کرسکیں اور وہ جو کچھ اونٹوں پر لاد کرلے جاسکتے تھے وہ ساتھ لے گئے اور اس طرح بنو نضیر کی پوری بستیوں پر مسلمانون کو فتح حاصل ہوگئی۔ چونکہ بنو نضیر سے بغیر جنگ کیے ان کی دولت اور جائیداد ہاتھ آگئی تھی تو مال غنیمت کی طرح اس کو بھی مجاہدین میں قاعدہ کے مطابق تقسیم کیا جاتا لیکن اللہ نے اس مال کو ” مال فے “ قرار دے کر احکامات نازل فرمائے۔ ” مال غنیمت “ یہ ہے کہ جنگ میں جو کچھ ہاتھ آئے اس کو ایک جگہ جمع کرکے اس کے پانچ حصے کئے جائیں۔ چار حصے جنگ میں حصہ لینے والوں میں تقسیم کیے جائیں اور ایک حصہ بیت المال میں جمع کردیا جائے تاکہ اس سے مملکت کی ضروری امور سرانجام دئے جائیں۔ ” مال فے “ دشمن سے حاصل ہونے والا وہ مال و دولت وغیرہ ہے جو بغیر جنگ کے ہاتھ آئے اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ مال فے کو فوج میں تقسیم نہ کیا جائے بلکہ اس کو اللہ ورسول کے لئے مخصوس کردیا جائے تاکہ کوئی بھی اس سے محروم نہ رہے۔ اللہ کی طرف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار دیا گیا کہ آپ اس مال فے کو رشتہ داروں، یتیموں اور مسافروں پر خرچ فرمائیں اس طرح وہ ضرورت مند مہاجرین جنہوں نے اللہ کی رضا کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کی اسی طرح وہ انصار مدینہ کے ضرورت مند بھی اس کے مستحق ہیں جنہوں نے مہاجرین کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دیں اور اپنی ضروریات کے باوجود انہوں نے کبھی بخل اور کنجوسی سے کام نہیں لیا بلکہ اپنے اوپر مہاجرین کو ترجیح دی۔ ٭آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے مومنو ! اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اطاعت و فرمانبرداری کرتے رہو۔ گناہوں سے بچتے رہو تو کہ تم جنت کے مستحق بن جائو۔ اللہ نے فرمایا کہ جہنم والے اور جنت والے کبھی یکساں اور برابر نہیں ہوسکتے کیونکہ جنت والے کامیاب و بامراد لوگ ہیں۔ فرمایا کہ اس باعظمت قرآن پر پوری طرح عمل کرو جس کی شان یہ ہے کہ اگر اس کو پہاڑ پر نازل کردیا جاتا تو وہ اس کے بوجھ سے دب جاتا اور اس کے ٹکڑے اڑ جاتے مگر وہ اس بوجھ کو برداشت نہ کر پاتا۔ فرمایا کہ ہر شخص کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس نے اپنے کل کے لئے کیا آگے بھیجا ہے۔ فرمایا کہ اس اللہ کو مانو جو ہر طرح کی عبادت و بندگی کا مستحق ہے جو ہر چیز کے ظاہر اور باطن کو اچھی طرح جانتا ہے۔ بڑا مہربان نہایت رحم و کرم کرنے والا ہے۔ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ وہ بادشاہ ہے نہایت مقدس، سلامتی ہی سلامتی ، امن دینے والا، نگہبان، ہر ایک پر غلبہ رکھنے والا، اپنا حکم پوری قوت سے نافذ کرنے والا، ہر طرح کی بڑائیوں کا مستحق ہے۔ ہر اس شرک سے پاک ہے جو لوگ اس کی ذات اور صفات میں ملا رہے ہیں۔ وہی پیدا کرنے والا، نافذ کرنے والا، صورت شکل بنانے والا، سارے بہترین نام اسی کے ہیں۔ زمین وآسمان میں جو کچھ ہے وہ اسی کی حمدو ثنا کر رہا ہے وہی زبردست حکمت والا ہے۔
Top