تعارف
تعارف سورة القلم
سورة 68
کل رکوع 2
آیات 52
الفاظ و کلمات 306
حروف 1295
مقام نزول مکہ مکرمہ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرتے ہیں ان کے لئے ان کے رب کے پاس نعمتوں سے بھرپور جنتیں ہیں۔ اور کفار کے لئے نار جہنم۔ فرمایا کہ ان کفار نے کیا سمجھ رکھا ہے کہ اللہ اپنے فرمانبردار بندوں کو اور مجرموں کو ایک جیسا درجہ اور مقامدیں گے اور ان کے ساتھ یکساں سلوک کریں گے۔ ہرگز نہیں بلکہ اللہ فرماں برداروں کو آخرت کی نعمتیں عطا فرمائیں گے اور کفار و مشرکین کے لئے جہنم کی ابدی تکلیفیں ہوں گی۔
فرمایا کہ قیامت کے دن جب سارے حجابات اٹھادیئے جائیں گے اور لوگون کو سجدہ کی طرف بلایا جائے گا تو اہل ایمان اللہ کے سامنے سجدے میں گر جائیں گے مگر وہ لوگ دنیا میں صحیح سالم ہونے کے باوجود اللہ کے سامنے سجدہ نہیں کرتے تھے وہ اس دن بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کرنے سے محروم رہیں گے۔ ان کی نظریں نیچی ہوں گی اور ان پر ہر طرح کی ذلت چھائی ہوئی ہوگی۔
اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیے جانے والے ظلم و ستم اور تکذیب سے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچتی تھی اس پر انہیں صبر و استقامت کی تلقین فرمائی ہے۔ کفار جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے تھے ان کو جواب اور کفار و مشرکین کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر مکمل اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرین ورنہ وہ باغ والے جنہوں نے کسی نصیحت والے کی نصیحت کو نہیں سنا اور آخر کار وہ تباہ وبرباد ہو کر رہ گئے اسی طرح اگر کفار قریش نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصیحتوں کو نہ مانا تو ان کا انجام بھی باغ والوں سے مختلف نہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے قلم اور اس سے لکھی جانے والی اس تحریر کی قسم کھا کر جسے فرشتے لکھ رہے ہیں فرمایا ہے کہ اللہ کے فضل وکرم سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیوانے یا مجنون نہیں ہیں بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اخلاق کریمانہ کے اس اعلیٰ مقام پر فائز ہیں جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیض اور اجرو ثواب کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیوانہ کہنے والے اور اپنے آپ کو عقل مند سمجھنے والے بہت جلد اس بات کو جان لیں گے کہ دیوان کون ہے ؟ اور عقل مند کون ؟ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پروردگار اچھی طرح جانتا ہے راستے سے بھٹکے ہوئے کون لوگ ہیں اور کون سیدھے راستے پر چل رہے ہیں۔ وہ کفار سب کچھ اس لئے کر رہے ہیں کہ آپ ان کے دبائو میں آجائیں۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان جھٹلانے والوں کے کسی دبائو میں نہ آئیے۔ ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے دبائو میں آکر دین کے معاملہ میں ذرا سی نرمی اختیار کریں تو وہ بھی ڈھیلے پڑجائیں گے۔ خاص طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کے دبائو میں ذرا بھی نہ آئیں جو بہت قسمیں کھانے والا، بےوقعت، طعنے دینے والا، چغلیاں کھانے والا، بھلائی سے روکنے والا، ظلم و زیادتی میں حد سے گزر جانے والا، انتہائی بد عمل، گناہ گار اور ان تمام عیبوں کے ساتھ ساتھ وہ ” ولدالزنا “ بھی ہے۔ جسے اس بات پر بھی بڑا ناز ہے کہ وہ بہت زیادہ مالدار ہے۔ جب اس کے سامنے ہماری آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو نہایت تکبر اور نفرت سے کہتا ہے کہ یہ تو گزرے ہوئے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم بہت جلد اس کی ناک پر داغ لگائیں گے یعنی اس کو ذلیل و رسوا کرکے رکھ دیں گے۔
ارشاد ہے ہم نے ان مکہ والوں کو باغ والوں کی طرح آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ جب انہوں نے اس بات پر قسم کھائی تھی کہ ہم صبح کو سارا پھل اور غلہ جمع کرکے لے آئیں گے اور کسی غریب کو ذرا سی چیز بھی نہ دیں گے وہ یہ فیصلہ کرتے وقت انشاء اللہ تک کہنا بھول گئے۔ فرمایا کہ وہ ابھی آرام سے رات کو سوئے ہوئے تھے کہ اللہ کے حکم سے ان کے باغ پر ایک آفت گھوم گئی اور انکا باغ تباہ و برباد ہوکر رہ گیا۔ وہ صبح ہی صبح ایک دوسرے کو آواز دینے لگے کہ فوراً سویرے سویرے اپنے باغ کی طرف چلو۔ وہ چپکے چپکے باتیں کرتے جا رہے تھے تاکہ کسی کو معلوم نہ ہو اور کوئی غریب ان کی آہٹ سن کر اس کے ساتھ نہ لگ جائے۔ وہ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ بس ہم جائیں گے اور سارا پھل سمیٹ کرلے آئیں گے۔ لیکن جب وہ اپنے باغ پر پہنچے اور راکھ کا ڈھیر دیکھا تو کہنے لگے شاید ہم رات کے اندھیرے میں کسی اور کے باغ پر پہنچ گئے ہیں۔
مگر کچھ دیر کے بعد ان کو پتہ چل گیا کہ یہ ان ہی کا باگ ہے اور وہ اللہ کے حکم سے تباہ ہوچکا ہے اور وہ اپنے باغ سے محروم ہوچکے ہیں۔ ان بھائیوں میں سے جو نیک اور معتدل مزاج تھا اس نے کہا دیکھو میں نے تمہیں پہلے ہی منع کیا تھا کہ ایسا نہ کرو لیکن تمہیں مانے اب بھی وقت ہے کہ تم اللہ کی حمدو ثنا کرکے اس سے معافی مانگ لو۔ پہلے تو وہ سب کے سب آپس میں اس سارے واقعہ کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے رہے۔ پھر جب ان کو عقل آئی اور انہوں نے اپنی غلطی پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ ہم ہی خطا وار ہیں۔ ہم سرکش ہوگئے تھے۔ ہمیں اس پر افسوس ہے۔ ہم اپنے اللہ کی حمدو ثنا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اللہ ہماری غلطی کو معاف کرکے ہمیں اس سے بہتر باغ عطا فرمادے گا۔ ہم اللہ ہی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ دیکھو ہمارا عذاب ایسا ہوتا ہے اور آخرت کا عذاب تو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے لئے انکے رب کے پاس نعمت بھری جتنیں ہیں۔ فرمایا کہ انہوں نے کیا سمجھ رکھا ہے کیا ہم اپنے فرمانبردار بندوں اور مجرموں کو ایک جیسا درجہ دیں گے اور ان کے ساتھ یکساں سلوک کریں گے ؟ ہرگز نہیں۔ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسی بےتکی باتیں کرتے ہیں۔ کیا ان کے پاس کوئی ایسی کتاب ہے جس میں یہ پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے آخرت میں وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے اور انہیں ان کی من پسندتمام نعمتیں دی جائیں گے۔ کیا انہوں نے اللہ سے کوئی عہدو پیمان کر رکھا ہے کہ وہاں وہی سب کچھ ہوگا جو یہ لوگ اپنے لئے پسند کرتے ہیں ۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے پوچھئے کہ جن کو وہ اللہ کا شریک بنا رہے ہیں کیا ان میں سے ان باتوں کوئی ذمہ دار ہے۔ انہیں چاہیے اپنے ان شریکوں کو لے کر تو آئیں اگر وہ اپنی بات سے سچے ہیں۔
فرمایا کہ جس دن پنڈلی کھولی جائے گی یعنی درمیان کے سارے پردے ہٹا دئیے جائیں گے۔ لوگوں کو سجدہ کی طرف بلایا جائے گا تو وہ کافر اللہ کے سامنے سجدہ نہ کرسکیں گے۔ ان کی نظریں نیچی ہوں گے۔ ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی۔ کیونکہ جب یہ لوگ بالکل درست اور صحیح تھے اور ان کو اللہ کے سامنے سجدہ کرنے کو کہا جاتا تھا تو وہ اس کا انکار کرتے تھے۔
فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ دین کو پھیلائیے۔ ان کفار کے معاملہ کو مجھ پر چھوڑئیے۔ میں خود ان کو تباہی کی طرف آہستہ آہستہ لے جاؤں گا کہ ان کو اس کی خبر بھی نہ ہوگی۔ میں ان کو مہلت اور ڈھیل دے رہا ہوں لیکن میری تدبیر بہت زبردست ہے۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس تبلیغ دین پر ان سے کچھ اجرت اور معاوضہ مانگ رہے ہیں کہ وہ اس کے نیچے دبے چلے جا رہے ہیں۔ یا ان لوگوں کے پاس غیب کا کوئی علم ہے جسے یہ لکھ رہے ہیں ؟
فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کیجئے اور مچھلی والے (حضرت یونس (علیہ السلام) ) کی طرح نہ ہوجائیے۔ جب انہوں نے اپنے رب کو اس حال میں پکارا کہ وہ غم سے گھٹے جا رہے تھے۔ اگر آپو کے رب کا کرم نہ ہوتا تو وہ خراب حالت میں ایک چٹیل میدان میں پڑے رہ جاتے۔ آخر کار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے ان کو اور برگزیدہ کرلیا اور ان کو صالحین میں سے کردیا۔ فرمایا کہ یہ کفار جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن میں اس طرح کی باتیں سنتے ہیں تو وہ آپ کو ایسی گندی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ جیسے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدم اکھاڑ دیں گے۔ اسی لئے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیوانہ کہتے ہیں۔ حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس قرآن کو پیش کر رہے ہیں وہ تو سارے جہاں والوں کے لئے سراسر نصیحت ہی نصیحت ہے۔