بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ الحاقة - تعارف
تعارف
تعارف سورة الحاقہ سورة نمبر 69 کل رکوع 2 آیات 52 الفاظ و کلمات 260 حروف 1134 مقام نزول مکہ مکرمہ “ الحاقہ ” واقع ہونے والی وہ قیامت جب بلند وبالا اور مضبوط پہاڑ کوٹ کر ریزہ ریزہ کر دئیے جائیں گے۔ آسمان پھٹ جائے گا اور پورے نظام کائنات کو الٹ کر رکھ دیا جائے گا۔ ” آخرت “ وہ حقیق دن جب میدان حشر قائم ہوگا اور اس میں ہر شخص کو حاضر ہو کر اللہ کی عدالت میں اپنی زندگی بھر کے کیے ہوئے کاموں کا حساب دینا ہوگا۔ ہر شخص کا نامہ اعمال اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا جن کے اعمال بہتر ہوں گے وہ اپنا نامہ اعمال خوشی اور مسرت کے ساتھ ایک دوسرے کو دکھاتے اور پڑھواتے پھریں گے اور جن کے اعمال نامے خراب ہوں گے وہ نہایت حسرت و افسوس کے ساتھ کہتے ہوں گے کاش یہ دن دیکھنے سے پہلے ہی مٹی ہوگئے ہوتے وہ اپنی بدنصیبی پر رنج و غم میں مبتلا ہوں گے۔ فرمایا کہ جو لوگ قیامت، آخرت اور رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات کے منکر ہوتے ہیں ان کو اسی دنیا میں قیامت کی تباہ کاریاں دکھا دی جاتی ہیں چناچہ قوم عاد، قوم ثمود، قوم فرعون اور قو م لوط جو دنیاوی اعتبار سے نہایت مضبوط اور خوش حال قومیں تھیں جب انہوں نے اللہ اور اس کے رسولوں کی نافرمانیوں کی انتہا کردی تو پھر ان پر شدید ترین عذاب آئے۔ کوئی طاقت و قوت ان کے کام نہ آسکی اور آج ان کے کھنڈرات اس کے گواہ ہیں کہ ان میں سے کسی کو بھی باقی نہیں رکھا گیا اور دنیا سے ان کا وجود مٹا دیا گیا ہے۔ ایسے نافرمانیوں کو آخرت میں اس سے بھی شدید عذاب دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ نے پہلے ہی سے آگاہ کرنے والا کلام اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ بھیج دیا ہے وہ ایسا کلام ہے جو نہ تو کسی شاعر کا قول ہے اور نہ کسی کاہن کا بلکہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے جو ایک مقدس فرشتے کے ذریعہ پہنچایا گیا ہے۔ جو لوگ اللہ کے اس کلام پر عمل کریں گے ان کو دنیا اور آخرت میں بلندی اور نجات ملے گی اور اگر نافرمانی کے طریقے اختیار کیے گئے تو اللہ کا دستور یہی ہے کہ وہ ظالموں کو آخرت سے پہلے اسی دنیا میں ان کا بدترین ٹھکانا دکھا دیا کرتا ہے۔ فرمایا کہ جب قوم عاد اور قوم ثمود نے قیامت، آخرت، رسول اور اس کے لائے ہوئے کلام کو جھٹلایا تو ایک سخت اور دہشت ناک چنگھاڑ کے ذریعہ ان کو تباہ و برباد کردیا گیا۔ قوم عاد جن کو اپنی طاقت اور مال و دولت پر بڑا ناز تھا ان کو شدید طوفانی آندھیوں سے تباہ کیا گیا۔ ان پر مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک اس طرح طوفان مسلط کیا گیا کہ وہ طوفانی ہوائیں ان کو اس طرح اٹھا اٹھا کر پٹک رہی تھیں کہ ان کے وجود کھجور کے کھوکھلے تنوں کی طرح ہر طرف بکھرے ہوئے نظر آتے تھے اور آج ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں بچا ہے۔ قوم ثمود کو ایک زبردست اور زوردار دھماکے سے تباہ کیا گیا۔ فرمایا کہ قوم عاد اور قوم ثمود کی طرح جس قوم نے بھی اللہ کی بھیجی ہوئی سچائی کو جھٹلایا اس کا یہی انجام ہوا۔ چناچہ قوم فرعون، اس سے پہلے منکرین اور قوم لوط جن کی بستیوں کو الٹ کر پھینک دیا گیا تھا سب کو نافرمانی کی سکت سزا دی گئی اور ان کو سختی سے پکڑا گیا۔ فرمایا کہ طوفان نوح کے موقع پر اللہ نے اپنے فرمانبرداروں کو کشی میں سوار کرا کے بچا لیا تاکہ اس واقعہ سے ہر شخص عبرت حاصل کرسکے۔ اس کو ایک یادگار بنایا گیا تاکہ یادر رکھنے والے کان اس کو محفوظ کرلیں۔ فرمایا کہ میدان حشر میں جب اچھے یا برے اعمال نامے ہر شخس کے سامنے رکھ دئیے جائیں گے تو ان لوگوں کی خوشی کا ٹھکانا نہ ہوگا جنہوں نے نیک اعمال کیے تھے لیکن برے اعمال والے لوگ جو حسرت اور افسوس کرتے ہوئے ہوں گے ان کے لئے اللہ کی طرف سے حکم ہوگا کہ ان کو پکڑو، ان کی گردنوں میں طوق ڈالو اور گھسٹتے ہوئے جہنم میں لے جا کر جھونک دو اور انہیں ستر ہاتھ لمبی زنجیروں میں جکڑ دو کیونکہ یہ وہ بدنصیب لوگے ہیں جو دنیا میں نہ تو اللہ پر ایمان لائے اور نہ انہوں نے کسی غریب اور محتاج کو سہارا دیا۔ آج ان کا کوئی جگری اور گہرادوست ان کے کسی کام نہ آئے گا۔ ان کا آج کھانا بھی زخموں کی پیپ (دھو ون) کے سوا کچھ نہیں ہے جو ایسے منکرین کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تما چیزوں کو قسم کھا کر جو آدمی کو نظر آتی ہیں یا نظر نہیں آتیں فرمایا ہے کہ یہ کلام یعنی (قرآن مجید) ایک معزز اور ایک بزری والے فرشتے کے ذریعہ بھیجا گیا کلام الٰہی ہے۔ یہ کسی شاعر یا کاہن کی باتیں اور کلام نہیں ہے۔ نہ اس کو ہمارے رسول نے خود سے گھڑ کر ہماری طرف منسوب کیا ہے بلکہ اللہ کا نازل کیا ہوا کلام ہے اگر اس کلام کو نبی گھڑ کر ہماری طرف منسوب کرتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکر کر ان کی رگ جان کو کاٹ ڈالتے اور تم میں سے کوئی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔ یہ قرآن کریم ان لوگوں کے دھیان دینے کی چیز ہے جو اللہ کا خوف رکھتے ہیں۔ فرمایا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے اس کلام کو ہی لوگ جھٹلاتے ہیں جن کا مزاج ہی کفرو انکار بن چکا ہے جو آخر کار ان کافروں کے لئے حسرت و افسوس کا ذریعہ بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ کہ یہ ہمارا کلام بالکل سچا کلام ہے یعنی اس کی سچائی دنیا پر کھل کر رہے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کا دین پہنچانے کی جو جدوجہد کر رہے ہیں وہ کرتے رہیے اور اپنے رب عظیم کی تسبیح اور حمدو ثنا کرتے رہیے۔
Top