تعارف
تعارف سورة الاعراف
بسم اللہ الرحمن الرحیم
٭سورۃ نمبر 7
رکوع 24
آیات 206
الفاظ و کلمات 3387
حروف 14635
مقام نزول مکہ مکرمہ
٭خصوصیت :
اس سورة میں توحید و رسالت اور فکر آخرت پر زور دیا گیا ہے۔
٭فرض منصبی :
دین کو سچائیوں کو بےخوف و خطر ہو کر پھیلانا ہر مسلمان کا فرض منصبی ہے۔
اعراف۔ (عرف کی جمع) اونچے پہاڑ اور ٹیلوں کو اعراف کہا جاتا ہے۔
اس سورة میں اعراف والوں کا ذکر ہے۔ اس لیے اس سورة کا نام اعراف رکھا گیا ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ جنت اور جہنم کے درمیان ایک میدان میں کچھ ایسے اونچے پہاڑ ‘ ٹیلے اور دیواریں سی ہونگی جہاں پر کھڑے ہونے والوں کو جنتی اور دوزخی دونوں صاف صاف نظر آئیں گے۔
ان آیات میں اعراف والے ان لوگوں کو کہا گیا ہے جن کے اچھے اور برے اعمال وزن میں برابر ہونگے۔ ان کو جنت اور جہنم میں داخل کرنے سے پہلے اس میدان میں کھڑا کیا جائیگا جہاں اونچے پہاڑ اور ٹیلے ہوں گے۔
جب جنتیوں اور جہنمیوں کا فیصلہ ہوجائیگا تب اعراف والوں کا فیصلہ کیا جائیگا۔ توقع یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور کرم سے ان اعراف والوں کو جنت میں داخل فرمادیں گے۔
قرآن کریم کے نزول کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ لوگ جو وقتی فائدوں کے پیچھے پڑ کر آخرت کی فکر سے غافل ہوجاتے ہیں ان کو توحید و رسالت کی عظمت کی طرف لاکر ان میں فکر آخرت پیدا کی جائے۔ اسی لیے عبرت و نصیحت کے لیے گذشتہ انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی امتوں کی زندگی کو پیش کیا گیا ہے تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں اور نبی کے دامن اطاعت و محبت سے وابستہ ہو کر دین و دنیا کی تمام عظمتیں حاصل کرسکیں۔
سورة اعراف مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی ہے۔ اس لیے توحید و رسالت اس سورة کا مرکزی مضمون ہے۔ اس سورة کی پہلی ہی آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ‘ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اللہ کا پیغام بےخوف و خطر ہو کر اللہ کے بندوں تک پہنچائیے۔ کوئی سنے یا نہ سنے ‘ آپ اپنا فرض منصبی ادا کرتے رہیے اس معاملہ میں آپ اپنے دل میں کوئی تنگی محسوس نہ کیجئے۔ اللہ آپ کا محافظ و نگہبان ہے۔ جو سعادت مند لوگ ہیں وہ آپ کی بات ضرور سنیں گے لیکن جنہوں نے ضد ‘ عناد اور ہٹ دھرمی کا طریقہ اپنا رکھا ہے وہ آپ کی بات نہیں سنیں گے۔ گزشتہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا گیا کہ انہوں نے اللہ کا پیغام ہر شخص تک پہنچایا جن کے مقدر میں ایمان لانے کی سعادت تھی وہ آگے بڑھ کر نبی کے دامن سے وابستہ ہوگئے لیکن بد بخت اور بدنصیب لوگ اس نعمت سے محروم ہے۔۔۔۔ !
٭قیامت کب آئے گی اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کہہ دیجئے کہ میں تو اپنی جان کے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں سوائے اس کے جو اللہ چاہیے۔ اور اگر میں علم غیب رکھتا تو میں ہر طرح کی بھلائیاں سمیٹ لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو صرف اللہ کے عذاب سے ڈرنے والا اور نیک عمل کرنے والوں کو جنت کی خوش خبری سنانے والا ہوں۔
ایسے لوگ اپنے زمانے میں کچھ بھی رہے ہوں لیکن آج ان کی زندگی نشان عبرت ہے۔ فرمایا گیا کہ کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے اس کے اعمال اللہ کے ہاں محفوظ نہیں ہیں ؟ بلکہ وہ تمام اعمال محفوظ ہیں۔ ان اعمال کو تو لاجائے گا۔ جس کے جیسے اعمال ہونگے اس سے ویسا ہی معاملہ کیا جائیگا۔۔۔۔ ۔۔ جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی ان کے معاملہ کو کچھ دیر روک کر بالآخر ان کو بھی جنت کی ابدی راحتوں سے ہمکنار کردیا جائے گا۔ ان ہی لوگوں کو اصحاب الاعراف فرمایا گیا ہے۔