بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ نوح - تعارف
تعارف
تعارف سورة نوح سورة نمبر 71 کل رکوع 2 آیات 28 الفاظ و کلمات 231 حروف 974 مقام نزول مکہ مکرمہ تعارف : سورة نوح اس زمانہ میں نازل ہوئی جب مکہ مکرمہ میں کفار مکہ نے اسلامی دعوت کے خلاف زبردست مزاحمت شروع کردی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے کفار قریش اور مشرکین پر سورة نوح کے ذریعہ اس بات کو صاف صاف واضح فرما دیا ہے کہ جس طرح آج اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو کفار مکہ رد کر رہے ہیں اور مخالفت کی انتہاؤں پر پہنچ گئے ہیں اسی طرح حضرت نوح (علیہ السلام) نے دن رات اپنی قوم کو سمجھایا مگر وہ قوم اللہ ورسول کی نافرمانیوں میں لگی رہی جب حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم سے قطعاً مایوس ہوگئے تو انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں سارے معاملہ کو رکھ کر دعا کی جو قبول کرلی گئی اور پھر پوری قوم کو نہ صرف پانی میں غرق کردیا گیا بلکہ آخرت میں بھی ان پر آگ کا عذاب مسلط کیا جائے گا۔ کفار قریش سے کہا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری نافرمانیاں بھی انتہا تک پہنچ جائیں اور ہمارا نبی ہماری بارگاہ میں فریاد پہنچا دے۔ اگر تم نے اپنا انداز اور طریقہ نہ بدلا تو تمہارا انجام بھی قوم نوح جیسا ہوسکتا ہے۔ سورة نوح میں صرف حضرت نوح (علیہ السلام) کی ان نصیحتوں کو بیان کیا گیا ہے جو انہوں نے اپنی قوم کے سامنے بیان فرمائی تھیں۔ پوری سورة کا خلاصہ یہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف اپنا پیغام دے کر بھیجا تھا کہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو ایک المناک عذاب آنے سے پہلے آگاہ اور خبردار کردیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا۔ لوگو ! میں تمہیں صاف صاف انداز سے یہ بات بتا رہا ہوں کہ تم اللہ کی عبادت و بندگی کرو۔ اسی سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔ وہ اللہ اتنا مہربان ہے کہ نہ صرف تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا بلکہ تمہیں ایک مقرر اور معین وقت تک باقی رکھے گا۔ یہ بات یاد رکھو کہ اللہ کی طرف سے مقرروقت گزرجاتا ہے تو پھر (عذاب الٰہی کو) ٹالا نہیں جاسکتا۔ کاش تم میرے اس بات کو سمجھ سکو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا۔ میرے پروردگار میں نے اپنی قوم کو دن رات دعوت پیش کی مگر وہ میری پکار اور دعوت سے بھاگتے ہی رہے۔ جب میں نے ان سے کہا کہ تم اللہ سے پانے گناہوں اور خطاؤں کی معافی مانگ لو تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے منہ پر کپڑا ڈھانپ لیا تاکہ نہ سنائی دے نہ دکھائی دے۔ پھر وہ اپنے کفر پر اسی طرح اڑ گئے کہ تکبر کے ساتھ انہوں نے ہر بات کو رد کردیا۔ میں نے پھر بھی بلند آواز سے، کھل کر، چھپ کر ہر طرح سمجھایا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم اللہ سے معافی مانگ لو وہ بہت معاف کرنے والا مہربان ہے۔ وہ تم پر خوب بارشیں برسائے گا، تمہیں مال و دولت، اولاد اور خاص طور پر بیٹوں سے نواز دے گا۔ تمہارے لئے ہرے بھرے باغ پیدا کرکے نہریں بہا دے گا۔ تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کی عظمت و وقار کا اعتقاد ہی نہیں رکھتے۔ حالانکہ اس نے تمہیں کس کس طرح نشوونما دی ہے۔ کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ اسی نے ایک پر ایک سات آسمان بنائے ہیں اس نے چاند کو نور اور سورج کو چراگ کی طرح روشن کیا ہے اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے وہ تمہیں اسی زمین میں واپس لے جائے گا اور پھر اسی زمین سے تمہیں دوبارہ نکال کر کھڑا کر دے گا۔ اسی نے تو زمین کو فرش کی طرح بچھا دیا ہے تاکہ تم اس کے کھلے اور کشادہ راستوں میں چلو پھرو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا الٰہی ! وہ لوگ میری اطاعت کے بجائے ان لوگوں کے پیچھے لگ گئے ہیں جو ان میں سے مال دار اور رئیس ہیں جنہوں نے مکرو فریب کے جال ہر طرف پھیلا رکھے ہیں۔ وہ لوگوں سے کہتے ہیں کہ لوگو تم ہرگز اپنے معبودوں ود، سواع، یغوچ، یعوق اور نسر کو مت چھوڑنا یہی تو ہمارے کام بنانے والے ہیں۔ اس طرح انہوں نے پوری قوم کو گمراہ کرکے رکھ دیا ہے۔ الٰہی ! جب انہوں نے گمراہی کا راستہ اختیار ہی کرلیا ہے تو آپ بھی ان ظالموں کو گمراہیی کے سوا کسی چیز میں ترقی نہ دیجئے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا اے میرے پروردگار ان کافروں میں سے زمین پر بسنے والے کسی کافر کو نہ چھوڑئیے۔ اگر آپ نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ لوگ آپ کے بندوں کو گمراہ کرکے چھوڑیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا وہ فاسق و بدکار ہی ہوگا۔ میرے رب ! مجھے، میرے والدین کو اور جو بھی میرے گھر میں مومن کی حیثیت سے داخل ہے اس کو اور تمام مومن مردوں اور تمام مومن عورتوں کو معاف فرما دیجئے اور ظالموں کے لئے ہلاکت کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ فرمائیے۔ ” آخر کار اس طرح وہ پوری قوم اپنی خطاؤں کی وجہ سے غرق کردی گئی اور قیامت کے دن وہ جہنم کی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ پھر وہ اللہ کے سوا نہ کسی کو بچانے والا پائیں گے اور نہ اپنا مددگار۔ “
Top