بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ الأنفال - تعارف
تعارف
تعارف : ٭” انفال “ (نفل کی جمع ہے) زیادہ، زائد چیز۔ شریعت میں اس مال غنیمت کو کہتے ہیں جو جنگ میں دشمن سے حاصل ہوتا ہے۔ ٭ یہ سورة غزوہ بدر کے بعد ٢ ھ؁ میں نازل ہوئی جس میں صلح و جنگ، امن و سلامتی اور مال غنیمت کی تقسیم کے بنیادی اصولوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ٭ غزوہ بدر ١٧ رمضان المبارک ٢ ھ؁ میں پیش آیا۔ یہ مسلمانوں کا سب سے پہلا رمضان تھا اور کسی مسلح گروہ سے باقاعدہ جنگ کا پہلا تجربہ تھا۔ ٭عرب میں یہ دستور تھا کہ جب کسی فریق سے جنگ کی جاتی تھی تو جو شخس جس کو قتل کرتا یا اس سے مال غنیمت چھین لیتا وہ اسی کی ملکیت بن جاتا تھا۔ ٭ غزوہ بدر چونکہ اچانک پیش آیا جس کا پہلے سے کوئی تصور بھی نہ تھا۔ غزوہ بدر کے بعد قدرتی طور پر یہ سوال ہر شخص کے ذہن میں گونج رہا تھا اور کچھ بحث و مباحثہ بھی ہو رہا تھا کہ مال غنیمت کے لئے اسلام کا کوئی ضابطہ یا اصول ہے ؟ یا ہم پرانے دستور کے مطابق اس مال غنیمت کے مالک ہیں۔ ٭سورۃ الانفال کی آیات میں جب یہ اصول ارشاد فرمایا گیا کہ اہل ایمان کو اس جنگ میں یا آئندہ کسی جنگ میں جب بھی کوئی مال غنیمت ہاتھ آئے تو تمام چیزیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امانتیں ہیں۔ جس کو جو چیز حاصل ہو وہ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے لا کر ڈھیر کردے۔ تقسیم کا طریقہ یہ ہوگا کہ کل مال غنیمت میں سے چار حصے مجاہدین میں تقسیم کیے جائیں اور پانچواں حصہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ان کے رشتہ داروں اور غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ٭ یہ ابتدائی حکم تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اس بات پر اجماع امت ہے کہ اب کل مال غنیمت کی تقسیم امیر المومنین کے حکم کے مطابق ہوگی۔ غزوہ بدر حق و باطل کی وہ جنگ ہے جس نے کفار کے غرور کو خاک میں ملا دیا اور مسلمانوں کو عظیم فتح عطا فرمائی۔ غزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کی فرشتوں سے مدد فرمائی۔ ٢ ھ میں غزوہ بدر کے بعد یہ سورة نازل ہوئی جس میں صلح و جنگ کے اسلامی قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ جب قرآن کریم میں مال غنیمت کا حکم آگیا تو صحابہ کرام (رض) نے اس حکم کے آگے گردنیں جھکا دیں اور دورجہالت کے ہر طریقہ کو پاؤں تلے روند ڈالا۔ ٭ جیسا کہ آپ تفصیلات ملاحظہ فرمائیں گے کہ غزوہ بدر یعنی کسی پیشگی تیاری کے انتہائی بےسروسامانی کی حالت میں اچانک پیش آیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو زبردست فتح عطا فرمائی جس سے کفار مکہ اور مشرکین کی کمر ٹوٹ کردہ گئی۔ حق و باطل کے اس معرکہ نے جہاں کفار مکہ کے تکبر، غرور اور طاقت کو خاک میں ملا کر رکھ دیا وہیں دین اسلام، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کی دہشت سے کفار کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا اور ان کے دل کسی نامعلوم خوف سے گزرنے لگے۔ فرمایا کہ اے مومنو ! تم اس وقت کا تصور تو کرو جب تم بہت ہی کمزور تھے اور تمہیں ہر وقت یہ خوف لگا رہتا تھا کہ وہ لوگ تمہیں اچک کر نہ لے جائیں لیکن پھر اللہ نے تمہیں اپنی مدد سے قوت دی اور تیں حلال اور پاکیزہ رزق عطا فرمایا تاکہ تم اللہ کا شکر ادا کرو۔
Top