بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ الشرح - تعارف
تعارف
تعارف : اعلان نبوت کے وقت عرب کا پورا معاشرہ خاص طور پر مکہ مکرمہ جہالت اور جاہلیت کی انتہا تک پہنچ چکا تھا۔ قتل و غارت گری، جنگوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ، لوٹ مار، بددیانتی اور بد تہذیبی اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکی تھی۔ اللہ کے گھر میں تین سو ساٹھ بتوں کی پرستش طرح طرح کے وہم، قسم قسم کی رسمیں ان کا دین و مذہب بن چکا تھا۔ ہر طاقت ور کمزور کو نگل رہا تھا۔ بعض قبائل میں معصوم اور ننھی منی بچیوں کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالنے کو غیرت سمجھا جا رہا تھا۔ یہ اور اسی طرح کے حالات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حساس اور مخلصانہ طبیعت پر ایک طرح کے ایسے شدید بوجھ بن چکے تھے کہ اس کی وجہ سے آپ کی کمر جھکی جا رہی تھی۔ آپ یہ سوچتے تھے کہ جس معاشرہ میں ہر شخص اپنی بات چلا رہا ہے، قبائلی زندگی میں ہر شخص غرور وتکبر کا پیکر بنا ہوا ہے اس پورے معاشرہ کے بگاڑ کی اصلاح کیسے ہوگی ؟ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کرکے آپ کو وہ راستہ دکھا دیا جس کے زریعہ زندگی کے اس بگاڑ کی اصلاح ممکن تھی چناچہ آپ پر وحی کے ذریعہ اس بات کو واضح کردیا گیا کہ توحید خالص، رسالت کا صحیح تصور، قیامت کے آنے کا یقین اور فکر آخرت یہی وہ بنیادیں ہیں جن کے ذریعہ انسان کو دنیا اور آخرت کی حقیقی کامیابی نصیب ہو سکتی ہے اور بگڑا ہو امعاشرہ سیدھے راستے پر آسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی رہنمائی فرما کر آپ کے ذہن و فکر کے بوجھ کو ہلکا کردیا جس سے آپ کو اطمینان لقب حاصل ہوگیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب مبارک اور سینے کو قرآن کریم کے معارف اور علوم کو سمجھے کے لئے کھول دیا اور بتادیا کہ آپ جس راستے پر چل رہے ہیں یہ ایک کانٹوں بھرے راستے کی طرح ہے۔ طرح طرح کی مشکلات اور پریشانیاں آئیں گے لیکن صبرو تحمل سے آگے بڑھنے ہی میں کامیابیاں ہیں اور ان مشکلات کا حل موجود ہے کیونکہ کوئی مشکل ایسی نہیں ہے جس کے بعد آسانیاں نہ ہوں۔ فرمایا کہ کفار کی مخالفت اور غلط پروپیگنڈہ آپ کی شخصیت کو کوئی نقسان نہ پہنچا سکے گا بلکہ جیسے جیسے ان کی مخالفت اور ظلم و ستم بڑھتا جائے گا اللہ تعالیٰ آپ کے ذکر کو بلند کرتے جائیں گے۔ لہذا آپ جیسے ہی اپنی مشغولیات سے فارغ ہوں اللہ کے ذکر و فکر میں لگ جائیے اور عبادت کی مشقت کو اٹھائیے کیونکہ اسی میں دنیا اور آخرت کے خزانے چھپے ہوئے ہیں۔ سورة الانشراح میں ان ہی باتوں کو بیان کیا گیا ہے جن کا خلاصیہ یہ ہے کہ ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم نے آپ کے سینہ کو کھول نہیں دیا ؟ اور کیا ہم نے آپ کے اس بارگراں یعنی بھاری بوجھ کو آپ کے اوپر سے اتار نہیں دیا تھا جس سے آپ کی کمر جھکی جا رہی تھی ؟ فرمایا کہ کیا ہم نے ہر جگہ آپ کے ذکر کو بلند نہیں کردیا ؟ حقیقت یہ ہے بلاشبہ ہر تنگی اور مشکل کے بعد آسانی اور سہولت ہے۔ لہٰذا آپ جب بھی ان ذمہ داریوں سے فارگ ہوں تو عبادت کی مشقت کو برداشت کریں اور ہمیشہ اپنے پروردگار کی طرف رغبت اور توجہ فرمائیں “۔
Top