بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ التوبة - تعارف
تعارف
تعارف : ٭اس سورة کے دو نام آتے ہیں۔ (١) سورة توبہ۔ (٢) سورة برأت۔ ٭ توبہ کے معنی پلٹنے اور لوٹنے کے ہیں۔ جب کوئی اللہ کا بندہ گناہوں سے نادم ہو کر سچے دل سے اللہ کی طرف یعنی نیکیوں کی طرف پلٹتا ہے اس کو توبہ کہتے ہیں۔ چونکہ اس سورة میں چند صحابہ کرام (رض) کی توبہ قبول کی گئی ہے اس لئے اس کا نام سورة توبہ رکھا گیا ہے۔ ٭ سورة براء ت… براءت کے معنی چھٹکارا پانا۔ بیزاری اور نفرت کا اظہار کرنا ہے۔ چونکہ کفار و مشرکین مسلسل اپنی عہد شکنیوں کے مجرم تھے اس لئے مسلمانوں نے جو معاہدے کیے جاتے ان کو ختم کرکے کفار و مشرکین کو حرمین سے نکالنے اور کفارو مشرکین کی بد عہدیوں سے نفرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس لئے اس کا سورة براءت بھی فرمایا گیا ہے۔ ٭ قرآن کریم کی تمام سورتوں کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے اس لئے کی جاتی ہے کہ پڑھنے والے کو حصول برکت کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوجائے کہ ایک سورة ختم ہو کر دوسری سورة شروع ہوگئی ہے۔ اس لئے اس بات کو ذہن میں رکھیے کہ بسم اللہ کسی سورة کا جزو نہیں ہے۔ سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہیں لکھی گئی ہے اس کی وجہ کیا ہے ؟ ٭اس سلسلے میں بہت سے حضرات نے بہت سی باتیں کہی ہیں حضرت عثمان غنی (رض) جو کہ جامع القرآن ہیں جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی کہ سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھنے کی کیا وجہ ہے ؟ تو آپ (رض) نے اس کے جواب میں فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب بھی کوئی سورة یا آیات نازل ہوتیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی لکھنے والے کو بلا کر اسی وقت لکھوا دیتے۔ سورة انفال ان سورتوں میں سے ہے جو مدینہ منورہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی جب کہ سورة توبہ آخری زمانے میں نازل ہوئی۔ ان دونوں سورتوں کے مضامین جو جہاد و قتال سے متعلق ہیں اس قدر ملتے جلتے اور ایک جیسے ہیں کہ میں سمجھا کہ سورة توبہ سورة انفال کا جزو ہے۔ چونکہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی کوئی خاص وضاحت سامنے نہیں آئی یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا قرآن کریم کی ہر سورة کی ابتداء بسم اللہ سے کی جاتی ہے صرف سورة کے شروع میں بسم اللہ نہیں لکھی جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور ان مہاجرین و انصار پر توجہ فرمائی ہے یعنی توبہ قبول کرلی جنہوں نے ایسی تنگی و پریشانی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا جب کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک فریق کے دل پھرجائیں پھر وہ ان پر متوجہ ہوا۔ بیشک اللہ ان پر مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ سے رخصت ہوگئے۔ اسلئے میں نے دونوں سورتوں کو پاس پاس رکھ دیا اور بیچ میں بسم اللہ کو نہیں لکھا۔ ٭اب سورة توبہ کی جب بھی تلاوت کی جائے گی تو عام دستور کے مطابق اس کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھی جائے گی نہ پڑھی جائے گی، البتہ اگر کسی نے اس سورة کے درمیان سے تلاوت شروع کی تو اس میں اعوذ باللہ کے ساتھ بسم اللہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ٭ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منورہ ، مکہ مکرمہ اور قبائل کے کفارو مشرکین سے آپس میں جنگ نہ کرنے کے معاہدے کیے ہوئے تھے مگر ان کی طرف سے مسلسل عہد شکنیوں اور بدعہدیوں کی وجہ سے فتح مکہ کے بعد حرمین کی سرزمین کو کفار و مشرکین کے وجود سے پاک کرنے کے احکامات دئیے تاکہ وہ تمام معاہدات جو پہلے سے کئے گئے تھے اب ختم کرکے حرمین کی سرزمین میں قیامت تک کفارو مشرکین کا داخلہ ممنوع کردیا جائے۔ فرمایا گیا ہے کہ چار مہینے یا کسی جاری معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد اگر کفارو مشرکین اس سرزمین کو نہ چھوڑیں تو پھر ان سے قتال کیا جائے گا تاکہ کفر و شرک کے فتنے سے یہ سرزمین ہمیشہ کے لئے پاک ہوجائے گی۔ اور ان تین لوگوں پر بھی توجہ فرمائی جن کا معاملہ پیچھے رکھا گیا تھا۔ یہاں تک زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر ایسا بوجھ بن گئی تھی کہ ان کی جانوں پر بن آئی تھی۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اگر کوئی ٹھکانا ہے تو صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ ان تینوں حضرات حضرت کعب ابن مالک، مرارہ ابن ربیع اور حضرت ہلال ابن امیہ کی توبہ کو قبول کرلیا۔ آیات : ١ تا ٦ لغات القرآن۔ براء ۃ۔ (براء ) ۔ چھٹکارا پانا۔ جان چھڑانا۔ عھدتم۔ تم نے معاہدہ کیا تھا۔ سیحوا۔ چلو پھرو۔ اربعۃ اشھر۔ چار مہینے ۔ غیر معجز اللہ۔ اللہ کو بےبس نہیں کرسکتے۔ مخزی۔ رسوا کرنے والا۔ اذان۔ اعلان ہے۔ الحج الاکبر۔ بڑا حج ( جس حج میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرکت فرمائی) ۔ تبتم۔ تم نے توبہ کرلی۔ تولیتم۔ تم پلٹ گئے۔ لم ینقصوا۔ کمی نہ کی۔ لم یظاھروا۔ مدد نہ کی۔ اتموا۔ تم پورا کرو۔ انسلخ۔ نکل گیا۔ اقتلوا۔ جہاد کرو۔ وجدتھموھم۔ تم نے ان کو پایا۔ خذوا۔ پکڑو۔ احصروا۔ گھیرو۔ اقعدوا۔ بیٹھو۔ کل مرصد۔ ہر گھات کی جگہ۔ تابوا۔ انہوں نے توبہ کرلی۔ اقاموا۔ انہوں نے قائم کیا۔ اتوا۔ انہوں نے دیا۔ خلوا۔ چھوڑ دو ۔ سبیل۔ راستہ۔ ان احد۔ کوئی ایک۔ استجارک۔ آپ سے پناہ مانگے۔ اجرہ۔ اس کو پناہ دے سے۔ حتی یسمع۔ یہاں تک کہ وہ سن لے۔ ابلغہ۔ اس کو پہنچا دے۔ مامنہ، اس کی حفاظت کی جگہ۔ تشریح : سورۃ توبہ اور سورة براءت اس کے دو نام ہیں۔ اس سورت مین تین مخلص مسلمانوں کی توبہ قبول کرنے کا ذکر ہے اس لئے اس کو سورة توبہ کہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کفارو مشرکین سے ہاتھ اٹھا لینے اور بری الذمہ ہونے کے اعلان کی وجہ سے اس کو سورة براءت کہتے ہیں۔ قرآن کریم کی ہر سورت کے شروع میں ” بسم اللہ الرحم الرحیم “ لکھی ہوئی ہوتی ہے جو صرف اس بات کو علامت ہے کہ ایک سورت ختم ہونے کے بعد دوسری سورت شروع ہو رہی ہے۔ بسم اللہ قرآن کریم کی ایک آیت تو ہے جو سورة نمل میں آئی ہے لیکن ہر سورت کا جزو نہیں ہے۔ عام طریقے کے مطابق اس کے شروع میں ” بسم اللہ “ کیوں نہیں لکھی گئی یہ ایک سوال ہے ؟ جس کا صحابہ کرام (رض) اور علماء کرام نے جواب تحریر فرمایا ہے۔ (١) حضرت عثمان غنی (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے یہ یاد نہیں ہے کہ سورة انفال اور سورة براءت دو سورتیں ہیں ایک سورت ہے ۔ مضمون کے لحاظ سے ایک سورت لگتی ہیں ممکن ہے دو سورتیں ہوں اس سلسلہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی واضح ہدایت مجھے یاد نہیں ہے۔ (٢) بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں جنگی اصول اور عام رواج کے مطابق جب کوئی ایسا ” نقض معاہدہ “ (معاہدہ توڑنا) کی مراسلت ہوتی تھی تو اس میں اللہ کا نام نہیں لکھتے تھے چونکہ اس سورت مین کفار و مشرکین سے براءت، بےزاری اور دست برداری کا اعلان کیا گیا ہے ممکن ہے اس وجہ سے بسم اللہ نہ لکھی گوئی ہو۔ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے۔ بہرحال امن کے نزدیک یہ دو سورتیں کی جاتی ہیں اسی لئے سورة انفال کے بعد جب سورة توبہ شروع ہوتی ہے تو کچھ جگہ خالی ہوتی ہے جس میں بسم اللہ نہیں ہوتی۔ مسئلہ کی رو سے اب جب بھی سورة براءت شروع کی جائے گی تو اس کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھی جائے گی اور نہ پڑھی جائے گی لیکن اگر کسی شخص نے سورة ٔ براءت کو کچھ حصہ پڑھ لیا اور رک گیا تو دوبارہ تلاوت کرتے وقت اعوذ باللہ کے ساتھ بسم اللہ پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ سورة ٔ برأت کے پہلے رکوع (آیت نمبر ١ تا نمبر ٦) میں کفارو مشرکین سے دست برداری کے اعلان اور اس عمل کرنے کا جو بھی حکم دیا گیا ہے اس کی تفصیل یہ ہے۔ (١) ٦ ہجری میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرہ ادا کرنے کا ارادہ فرمایا اور چودہ سو صحابہ کرام (رض) بیت اللہ کی زیارت کے لئے آپ کے ہمراہ ہوگئے۔ بیت اللہ جو اللہ کا گھر ہے اس میں موافق، مخالف، دوست اور دشمن کسی کو زیارت بیت اللہ سے روکنے کا کسی کو حق حاصل نہیں تھا۔ جب کفار مکہ کو یہ معلوم ہوا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ڈیڑھ ہزار صحابہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرہ کرنے کے لئے حدیبیہ کے مقام تک پہنچ چکے ہیں تو وہ گھبرا اٹھے وجہ یہ تھی کہ اگر نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرہ ادا کرکے واپس جاتے ہیں تو قریش کی ہوا اکھڑ جائے گی اور اگر منع کرتے ہیں تو ساری دنیا میں یہ رسوائی ہوگی کہ اللہ کی عبادت سے اللہ کے بندوں کو روک دیا گیا پہلے تو کفار مکہ نے کچھ ایسی سازشیں کیں جن سے دنیا پر ظاہر کردیا جائے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ صحابہ (رض) عبادت کے لئے نہیں بلکہ جنگ کرنے کے لئے آئے ہیں مگر ان کی ہر سازش اور چال کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر ہی الٹ دیا۔ بالآخر وہ اس بات پر راضی ہوگئے کہ ہم مسلمانوں کو عبادت سے تو نہیں روکتے لیکن اس سال ایک معاہدہ کرلیتے ہیں تاکہ آئندہ سال مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت اور سہولت دیدی جائے۔ چناچہ ایک معاہدہ دس سال کے لئے طے پا گیا جس کو تاریخ میں ” صلح حدیبیہ “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کفار مکہ نے اندرونی اور بیرونی دبائو کی وجہ سے معاہدہ تو کرلیا۔ لیکن اس کا مقصد صرف وقت کو ٹالنا تھا۔ چناچہ کفار مکہ اور ان کے حلیفوں نے ایسی سازشیں ، حملے اور خفیہ کاروائیاں شروع کردیں جن سے اس معاہدہ کی دھجیاں بکھر کر رکھ دی گئیں۔ چونکہ اس معاہدہ کی خلاف ورزی کفار مکہ کی طرف سے کی گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس ہزار صحابہ (رض) کے ساتھ بغیر کسی خون خرابے کے ٨ ہجری میں مکہ کو فتح کرلیا۔ مکہ فتح ہونے کا مطلب یہ تھا کہ پورے جزیرۃ العرب پر آپ کا اور آپ کے صحابہ کرام (رض) کا قبضہ ہوچکا ہے۔ لیکن کفارو مشرکین چوت کھائے ہوئے سانپ کی طرح اپنی انتقامی کاروائیوں میں مشغول رہتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد پورے جزیرۃ العرب پر آپ کا مکمل کنٹرول ہوچکا تھا۔ لیکن اندرونی اور بیرونی خطرے بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے کفار و مشرکین سے دست برداری کا اعلان کردیا۔ ان آیات میں فرمایا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلان عام کیا جاتا ہے کہ مشرکین سے جو معاہدہ کیا گیا تھا اب اس سے دست برداری کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اب کی حفاظت حکومت اسلامیہ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ چار مہینے کی مدت دی جاتی ہے جس میں یہ اپنے مستقبل کے لئے کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں (١) چار مہینے کے اندر اندر جو شخص کسی بھی جگہ جا کر اپنا ٹھکانا بنا سکتا ہو وہ بنا لے (٢) یا وہ کفر و شرک سے توبہ کر کے اسلام قبول کرنا چاہے تو کرلے (٣) لیکن اگر چار مہینے کی یہ مدت گزر گئی تو پھر ان کے صفایا کرنے میں کسی بھی کوشش کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ جہاں یہ پائے جائیں گے ان کو گھیر کر تاک تاک کر قتل کیا جائے گا۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے نبی کریم و نے فرمایا کہ اے ابوبکر حج کے عظیم اجتماع میں جا کر اس بات کا اعلان کردو۔ پھر حضرت علی (رض) سے فرمایا کہ اے علی تم بھی جا کر ان آیتوں کو پرھ کر سب کو سنا دو اور اس کا اعلان عام کردو۔ چنانچہ ٩ ہجری کے حج کے موقع پر اس کا اعلان کیا گیا۔ ١٠ ہجری میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج فرمایا تو اس موقع پر صرف اہل ایمان اس حج میں شریک تھے کفارو مشرکین کو نکال دیا گیا تھا۔ یہی وہ حج ہے جس کو حجتہ الوداع کہا جاتا ہے یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دنیاوی زندگی کا آخری حج تھا اس حج کو حج اکبر فرمایا گیا ہے اور واقعتا اگر کوئی حج اکبر تھا تو وہ ہی تھا جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صرف اہل ایمان شریک تھے اس کے بعد کسی حج کو حج اکبر نہیں کہا جاسکتا مگر یہ کہ حج اکبر حج اصگر کے مقابلے میں بولا جائے کیونکہ اہل عرب عمرے کو حج اصگر کہتے ہیں اسیبنیاد پر امام ابوبکر حصاص (رح) نے احکام القرآن میں فرمایا کہ ایام حج کو حج اکبر کا دن کہنے سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ ایمام حج کے لئے مخصوص ہیں اور ان میں عمرہ نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ جو لوگوں میں مشہور ہے کہ جو حج جمعہ کے دن پڑجائے وہ حج اکبر ہوتا ہے یہ بات صحیح نہیں۔ یہ اپنی جگہ ایک فضیلت ضرور ہے کہ یوم عرفہ جمعہ کے روز ہوجائے لیکن اس بیاہد پر اسے حج اکبر کہنا عوامی اصطلاح ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ شریعت کی رو سے اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان آیتوں میں پہلا حکم تو یہ تھا۔ (٢) دوسرا حکم یہ فرمایا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس معاہدہ سے براءت کا اظہار فرمایا ہے اس میں یہ شرط ہے کہ اگر کسی قوم سے کوئی معاہدہ موجود ہے تو اس کا خیال رکھا جائے اور اپنی طرف سے معاہدہ کو نہ توڑا جائے۔ (٣) یا اگر کسی قوم سے کوئی ایسا معاہدہ ہے جسکی مدت مقرر ہے تو اس مدت کو اور اس معاہدہ کو پورا کیا جائے۔ (٤) چوتھی بات یہ فرمائی گئی کہ اگر کوئی مشرک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پناہ کی درخواست کرے تو آپ اس کو۔ صرف اس وقت تک پناہ دے سکتے ہیں، اس کی حفاظت کرسکتے ہیں جب تک وہ اللہ کا کلام نہ سن لے۔ اگر وہ اللہ کا کلام سن کر ایمان لے آئے اور اسلامی احکامات نماز و زکوٰۃ کی پابندی کرلے تو فرمایا کہ اب اس کا راستہ چھوڑ دو ۔ لیکن اگر وہ اپنی کفر کی روش پر قائم رہتا ہے تو اس کو اس کی حفاظت کی جگہ پہنچا دیا جائے۔ (٥) پانچویں بات یہ فرمائی گئی کہ جب اشھر الحرم گزر جائیں یعنی رجب ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم۔ ان چار مہینوں کے گزر نے کے بعد پھر تم جہاں بھی مشرکین کو پائو۔ گھیرو اور ہر گھات میں بیٹھ کر ان کو قتل کردو اور ان کے ساتھ کسی طرح کی نرمی کا معاملہ اختیار نہ کرو۔
Top