فہم القرآن - میاں محمد جمیل
سورۃ الشعراء - تعارف
تعارف
سورة الشعرآء کا تعارف ربط سورة : سورة الفرقان کی آخری آیت میں ارشاد ہے کہ جو لوگ ” اللہ “ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں ” اللہ “ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ الشعرآء کے آغاز میں ارشاد ہے کہ اگر یہ لوگ ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو ان پر دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سورة 11 رکوع اور 227 آیات پر مشتمل ہے۔ اس سورة کا نام آیت 224 میں موجود ہے۔ سورة کا زیادہ حصہ مکہ میں نازل ہوا، لیکن آخری آیات مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ جیسا کہ اس سورة کی ابتدائی آیات کی تفسیر میں ذکر ہوگا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش اور کوشش تھی کہ اہل مکہ بالخصوص آپ کے رشتہ دار ہر صورت حلقہ اسلام میں داخل ہوجائیں لیکن وہ لوگ کسی صورت بھی مسلمان ہونے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ بلکہ آپ کی جان کے دشمن ہوگئے۔ اس صورت حال پر آپ کا دل پسیج جاتا اور آپ رات کو اٹھ اٹھ کر اپنے رب کے حضور سر بسجود ہو کر زارو قطار روتے اور فریاد پر فریاد کرتے کہ بارالہا انہیں ہدایت سے سرفراز فرما دے۔ بسا اوقات آپ کی طبیعت پر یہ بات اس قدر گراں بار ہوتی کہ قریب تھا کہ آپ کی صحت بگڑ جائے۔ جس پر آپ کو تسلّی کے طور اور حقیقت حال سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ کیا اپنے آپ کو بیمار کرلیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے، اگر اللہ تعالیٰ انہیں جبراً مسلمان کرنا چاہتا تو اس کے لیے یہ مشکل نہ تھا کہ وہ اپنی قدرت کی ایسی نشانی ظاہر کرتا کہ ان کی گردنیں اس کے سامنے جھکے بغیر نہ رہ سکتی تھیں۔ لیکن اس کا ضابطہ نہیں کہ لوگوں کو جبراً ایمان لانے پر مجبور کرے۔ اس نے ہر قسم کے دلائل دے کر لوگوں کو کھلا چھوڑ دیا ہے کہ وہ مانیں یا اس کا انکار کریں۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” اللہ “ کی حکمت اور مشیت کو مد نگاہ رکھنا چاہیے۔ آپ کو تسلّی دینے اور ہدایت کے بارے میں بنیادی اصول بیان کرنے کے بعد۔ سات عظیم المرتبت انبیاء کرام کی جدوجہد ان کی دعوت کا انداز اور ان کی اقوام کے عقائد، جرائم اور ان کے بدترین ردعمل کا ذکر کیا ہے۔ تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبعین کے سامنے حق و باطل کی معرکہ آرائی اور اس کے انجام کا پورا نقشہ آجائے۔ آخر میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس قرآن کو رب العالمین نے روح الامین کے ذریعے آپ کے قلب سلیم پر نازل کیا ہے۔ اس کے نزول میں شیاطین کا ذرہ برابر بھی عمل دخل نہ ہے، اور نہ ہی یہ شاعرانہ کلام ہے۔ شعراء اور ان کی پیروی کرنے والوں کی غالب اکثریت گمراہ ہوا کرتی ہے۔ شاعر تو فکر و خیال کی ہر وادی میں منہ ماری کرتے ہیں۔ جب کہ قرآن مجید میں کسی قسم کی یا وہ گوئی اور فکری پراگندگی کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ بس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے آپ کو ایماندار ساتھیوں کے ساتھ وابستہ رکھیں ان کے لیے تواضع کا مظاہرہ فرمائیں۔ اپنے رب کے ساتھ یا اس کے سوا کسی اور کے سامنے فریاد کنان ہونے سے بچتے رہیں۔ اگر آپ نے اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو پکارا تو آپ بھی اس کے عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ ظالمو ! کو بہت جلد اپنے انجام کا علم ہوجائے گا۔
Top