فہم القرآن - میاں محمد جمیل
سورۃ آل عمران - تعارف
تعارف
سورة آل عمران اس سورة مبارکہ کا نام آل عمران ہے یہ آیت 33 سے لیا گیا ہے۔ حضرت عمران حضرت مریم [ کے والد گرامی اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے نانا محترم ہیں۔ یہ سورة مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی اس کے 20 رکوع اور 200 آیات ہیں۔ سورۂ آل عمران میں توحید کے دو ایسے پہلو نمایاں کیے گئے ہیں جن میں جلالت وجبروت اور اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ زندہ اور قائم رہنابیان ہوا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ جب کچھ نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ کی ذات اس وقت بھی موجود اور قائم تھی اور جب ہر چیز فنا کے گھاٹ اتر جائے گی تو اس وقت بھی ذات کبریا قائم و دائم رہے گی۔ اس سورة کے نازل ہونے کا پس منظر یہ ہے کہ نجران کا علاقہ جو شام اور مدینہ منورہ کے درمیان واقع ہے۔ وہاں سے عیسائیوں کا ایک نمائندہ وفد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام اور عیسائیت کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور ساتھ ہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں شامل ہیں۔ ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں اجمالی اشارے دیے گئے ہیں کہ یہ صفات عیسیٰ (علیہ السلام) اور کائنات کی کسی چیز میں نہیں پائی جاتیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ہی واحد اور معبود برحق ہے۔ وہ اپنی قدرت کاملہ سے ماں کے رحم کے اندر جس طرح اور جیسے چاہے بچہ پیدا کرتا ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اس کی خالقیت کا ایک نمونہ ہیں۔ اس کے بعد قرآن مجید کا تعارف کروایا گیا کہ یہ تورات ‘ انجیل اور ان سے پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔ ربط سورة : ” الفاتحہ “ کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی توحید سے اور ” البقرۃ “ کا آغاز قرآن مجید کے تعارف سے ہوا تھا۔ سورة آل عمران کی ابتداء ان دونوں مضامین سے ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اسی ذات لم یزل نے یہ کتاب حق اور سچ کے ساتھ نازل فرمائی۔ جس نے تورات اور انجیل کو نازل فرمایا۔ یہ قرآن ان کی تائید و تصدیق کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید ہدایت کا سر چشمہ ہے لیکن اس سے ہدایت پانے کے لیے چار بنیادی اصول ہیں : ١۔ قرآن مجید کو ہدایت حاصل کرنے کے لیے پڑھا جائے۔ ٢۔ قرآن مجید میں غور وخوض کیا جائے۔ ٣۔ قرآن مجید کی تشریح و توضیح کے لیے بنیادی اور مرکزی آیات کو رہنما اصول بنایا جائے۔ ٤۔ قرآن مجید پر عمل کیا جائے۔ جو شخص ان اصولوں کو چھوڑ کر قرآن مجید کی تشریح و تفسیر کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے بھٹکنے کا اندیشہ ہے۔ جس کے بارے میں اس سورة کی ابتدا میں وضاحت کردی گئی ہے کہ جن کے دلوں میں ٹیڑھ اور سوچ میں کجی ہے۔ وہ فرقہ واریت اور فتنہ پروری کے لیے بنیادی آیات کو چھوڑ کر متشابہات کو اپنے فکر کی بنیادبناتے ہیں حالانکہ متشابہات کا مفہوم اللہ تعالیٰ اور اہل علم کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ” سورة البقرۃ “ میں زیادہ تر یہودیوں کے کردار اور اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جس میں ضمنًا عیسائیوں کا ذکر ہوا تھا لیکن اس سورة مبارکہ میں خطاب کا اکثر رخ عیسائیوں کی طرف ہے جس میں ان کے عقائد ونظریات اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ان کے شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔ سورۃ البقرۃ میں تحویل قبلہ کے احکام کے بعد واضح کیا گیا تھا کہ مسلمانو ! تم محض پراپیگنڈہ سے خوفزدہ ہوئے جارہے ہو جب کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دشمن کے خوف، اعزہ و اقرباء کی شہادت، مال وجان کے نقصان ‘ بھوک و پیاس اور غربت و افلاس کے ساتھ بہر حال آزمانے والا ہے۔ چناچہ احد میں مسلمانوں کو ان آزمائشوں سے حقیقتاً واسطہ پڑا۔ پھر احد کے نتائج اور عارضی شکست پر تفصیلی تبصرہ کرتے ہوئے آخری اصول واضح کیا کہ دنیا میں حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہا کرتے۔ اگر تم سر بلند رہنا چاہتے ہو تو تمہیں مسلمان بن کر رہنا ہوگا۔ ” سورة البقرۃ “ کی ابتدا اور اس کے آخر میں ایمان کے بنیادی ارکان کا ذکر ہوا تھا جس بنا پر اسلام کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ سورة آل عمران میں یہ ارشاد ہوا کہ ایمان کی مبادیات کی طرح اسلام کی عمارت کے بنیادی ستون بھی ہمیشہ سے ایک رہے ہیں اور اسلام ہی اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔ یہی تمہارے لیے ضابطۂ حیات اور دستور زندگی ہے۔ جو فرد یا قوم اس کے علاوہ دوسرا راستہ تلاش کرے گی۔ اللہ تعالیٰ اس کے نظریۂ حیات اور کردار کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ اس کے بعد اہل کتاب کو مشترکہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا جس دین اور نظریات پر تم فخر اور ناز کررہے ہو۔ اس کا دور ختم ہوچکا ہے اب اسلام کا سکہ چلے گا اور تمہاری مخالفت کچھ کام نہیں آسکتی۔ کیوں کہ عزت، ذلّت، اقتدار اور اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ جسے چاہے جب چاہے عنایت فرمائے اور جب چاہے محروم کر دے۔ اس کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ اگر تم عظمت رفتہ کے خواہاں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے طلب گار ہو تو تمہیں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی قربت و محبت کا کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاندان کی بزرگی اور عظمت کا ذکر مرحلہ وار کرتے ہوئے عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش، معجزات اور ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کی وضاحت کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں یہودیوں کے دعو ٰی کی تردید کی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نہ قتل ہوئے اور نہ ہی انہیں تختہء دار پر لٹکایا گیا انہیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں آسمانوں پر صحیح سالم اٹھا لیا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں وضاحتی اور دعوتی خطاب 31 آیات تقریبًا 3 رکوع پر مشتمل ہے۔ اس تفصیلی خطاب کے بعد ایک دفعہ پھر یہود ونصارٰی کو اہل کتاب کے باعزت لقب سے مخاطب کرتے ہوئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے دعوت دی گئی ہے کہ آؤ اس کلمہ پر متفق ہوجائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان بنیاد اور قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی دعوت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تورات وانجیل کے نزول سے پہلے دیا کرتے تھے۔ یقین جانو کہ ابراہیم (علیہ السلام) یہودی، عیسائی اور مشرک نہیں تھے وہ تو ادھر ادھر اور دائیں بائیں کی نسبتوں کے بجائے صاف، سیدھے، مواحد اور کامل مسلمان تھے۔ اس کے بعد اہل کتاب کی سازشوں اور شرارتوں کا ذکر کیا اور فرمایا عیسیٰ (علیہ السلام) تو اللہ کے جلیل القدر نبی اور رسول تھے۔ اللہ تعالیٰ جس شخص کو کتاب، نبوت اور حکومت عطا کرے تو اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کو اللہ کی توحید سمجھانے اور اس کا بندہ بنانے کے بجائے اپنا بندہ بنانے کی کوشش کرے۔ تم انبیاء اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذمہ شرک لگاتے ہو۔ کیا وہ اللہ تعالیٰ کو ایک ماننے کے باوجود کفر و شرک کا حکم دے سکتے تھے ؟ انبیاء کا حال تو یہ تھا کہ انہوں نے ابتدائے آفرینش اپنے رب کے حضور یہ عہد کیا تھا کہ ہم تیری توحید کا اقرار اور اس کا پرچار کرنے کے ساتھ نبی آخر الزماں، خاتم المرسلین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر اس کی تائید کریں گے۔ انبیاء کے عہد کے بعد بیت اللہ کا تذکرہ اور اسے مرکزامن و ہدایت قرار دینے کا مقصد یہ ہے کہ اگر اہل کتاب اور بنی نوع انسان امن وامان، رشدو ہدایت چاہتے ہیں تو انہیں توحید کا اقرار اور رسول کی اتباع کرتے ہوئے ایک ہی مرکز کو اپنا نا ہوگا۔ جس طرح سورة البقرۃ کا اختتام قرآن کے الفاظ میں مومنوں کی دعاؤں کے ساتھ ہوا ہے اسی طرح آل عمران کا اختتام مومنوں کی دعاؤں سے ہوتا ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة البقرۃ اور آل عمران کو دو نور اور الزھراوین قرار دیا ہے : (اِقْرَءُ وا الْقُرْاٰنَ فَإِنَّہٗ یَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شَفِیْعًا لِاَّصْحَابِہٖ اِقْرَءُ وا الزَّھْرَاوَیْنِ الْبَقَرََۃَ وَسُوْرَۃَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّھُمَا تَأْتِیَانِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَنَّھُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ کَاَ نَّہُمَا غَیَابَتَانِ کَأَنَّھُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَیْرٍ صَوَآفَّ تُحَآجَّانِ عَنْ أَصْحَابِھِمَا اِقْرَءُ و سُوْرَۃَ الْبَقَرَۃِ فَإِنَّ أَخْذَھَا بَرْکَۃٌ وَتَرْکَھَا حَسْرَۃٌ وَلَا یَسْتَطِیْعُھَا الْبَطَلَۃُ ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃ البقرۃ ] ” قرآن کی تلاوت کیا کرو کیونکہ یہ روز قیامت اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی ہوگا دو روشن سورتیں البقرۃ اور آل عمران پڑھو یہ قیامت کے دن دو بدلیاں یا پرندوں کی طرح صفیں باندھے جھرمٹ کی طرح ہوں گی جو اپنے پڑھنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے تکرار کریں گی۔ سورة البقرۃ کی تلاوت کیا کرو اس کا پڑھناباعث برکت اور چھوڑنا حسرت کا سبب ہے اور جہاں یہ پڑھی جائے وہاں جادو اور جنات اثر انداز ہونے کی جرأت نہیں کرتے۔ “
Top