تعارف
تعارف سورة التوبۃ
یہ مدنی سورة ١٦ رکوع ١٢٩ آیات اور ٤٠٧٨ کلمات پر محیط ہے۔ اس مبارک سورة کے دو نام ہیں التوبہ اور برأت۔ التوبۃ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس سورة کی آیت ١١٨ میں غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے مخلص صحابہ کی توبہ کی قبولیت کا ذکر ہے۔ اس سورت کو سورة البرأۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ہی اس لفظ سے ہوا ہے کہ جس میں مشرکین مکہ اور ان کے گرد وپیش لوگوں سے کیے گئے معاہدات سے برأت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سورة کا نزول ٩ ہجری کے قریب ہوا ہے جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر صدیق کو حجاج کا امیر بنا کر روانہ کرچکے تھے ان کے رخصت کرنے کے فوراً بعد اس سورة کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تب اللہ کے پیغمبر نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی کو مکہ روانہ فرمایا کہ وہ آپ کی طرف سے حج کے موقع پر مشرکین کے ساتھ معاہدہ سے برأت کا اعلان کریں چناچہ حضرت علی (رض) نے حجاج میں سرعام یہ اعلان کیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ میں داخل نہیں ہوسکتا گویا کہ اس اعلان کا مدعا یہ تھا کہ اب وہ دور گزر چکا ہے جب مشرکین بیت اللہ کی تولیت کا دعوٰی کرتے تھے اور مسلمانوں کو اس کے داخلہ سے روکتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں مسلمانوں کی طرف سے بیت اللہ کی تولیت اور اسلام کے مکمل غلبہ کا اعلان تھا۔
چنانچہ اعلان ہوتا ہے کہ آج کے بعد اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان کرتے ہیں کہ ان کا مشرکین کے ساتھ کیے گئے عہد سے کوئی واسطہ نہیں تاہم اس اعلان میں یہ گنجائش رکھی گئی کہ جن مشرکین کے ساتھ کیے گئے عہد کی مدت باقی ہے اس کی پاسداری کی جائے گی جس کا مفہوم یہ ہے کہ آئندہ سر زمین حجاز میں مشرکوں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ ہوگا جس کے بنیادی طور پر دو اسباب تھے۔ ایک مشرکین کا بار بار مسلمانوں سے عہد شکنی کرنا اور دوسرا مرکز اسلام کو ہمیشہ کے لیے اغیار سے پاک کرنا تھا جس طرح آج بھی نظر یاتی حکومت اپنے دارالحکومت میں اغیار کو رہنے کا حق نہیں دیتی البتہ ایسے لوگ سچی توبہ کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ اپنی مسلمانی ثابت کریں تو وہ مسلمانوں کے بھائی تصور ہوں گے اور اسلامی مملکت میں جہاں چاہیں رہ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آیت ١٦ سے لے کر آیت ٢٤ میں واضح فرمایا مساجد کی تولیت اور نگرانی کا صرف ان لوگوں کو حق پہنچتا ہے جو عقیدہ توحید رکھنے کے ساتھ ارکان اسلام کی پابندی کرنے والے ہوں اگر وہ عقیدہ توحید اور ارکان اسلام سے لاپرواہی کرتے ہیں تو بیت اللہ اور حجاج کرام کی خدمت کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور نہ ہی ایسے لوگوں کے ساتھ دلی محبت اور رشتہ ناطہ قائم کرنے کی اجازت ہے، پھر مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے انھیں غزوۂ بدر اور حنین کا واقعہ یاد کروایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے خصوصی مدد کے ساتھ مسلمانوں کی تائید فرمائی تھی، پھر یہود و نصاریٰ کے علماء اور عوام کے دینی اور اخلاقی کردار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کی غالب اکثریت حرام خور اور دین اسلام کے راستے میں رکاوٹ بن چکی ہے۔
اس کے بعد غزوۂ تبوک کا پس منظر اور اس کے حالات کا ذکر کیا جس کا منظر یہ تھا ایک طرف مسلمانوں کی فصلیں تیار تھیں اور دوسری طرف موسم کی شدت اور تبوک کا دور دراز کا سفر سامنے تھا۔ ان حالات میں منافقوں نے ایک ایک کرکے اس غزوہ سے فرار کا راستہ اختیار کیا جن میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے مختلف بہانے بنا کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت طلب کی آپ منافقین کی بد نیتی اور لشکر اسلام کو ان کی شرارتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اجازت دیتے رہے۔ منافقین کے سوا مدینہ میں مسلم خواتین اور معذور صحابہ باقی تھے جو چند صحابہ کسی عذر کے بغیر محض سستی کی بنا پر پیچھے رہ گئے۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک سے واپسی پر ان لوگوں کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کا اعلان کیا جس پر صحابہ کرام (رض) نے اتنی سختی کے ساتھ عمل کیا جس کی مثال دنیا کی کسی منظم جماعت میں بھی نہیں پائی جاتی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ جنگ سے پیچھے رہ جانے والے صحابہ کے لیے مدینہ کی سرزمین اس طرح تنگ ہوگئی کہ ان کے لیے ان کے وجود بھی بوجھ بن گئے۔ بالآخر ان کی توبہ قبول ہوئی التوبہ کی آخری آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جانوں کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے اس لیے مومن اللہ کے راستے میں لڑنے مرنے سے جی نہیں چراتے ان کے ساتھ جنت کا وعدہ سچا اور پکا ہے جس کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی پایا جاتا ہے ان لوگوں کی صفات یہ ہیں یہ سچی توبہ کرنے والے عبادت گزار، ذکر و فکر میں مشغول، روزے کے اہتمام کرنے والے اپنے رب کی بار گاہ میں رکوع، سجود کرنے کے ساتھ امر بالمعروف نہی عن المنکر کے ساتھ اپنی حیا اور حدود اللہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اس سورة کی ابتدا میں مشرکین سے براءت کا اعلان ہوا ہے لہٰذا اس کے آخر میں دو ٹوک انداز میں حکم دیا ہے اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اور آپ پر ایمان لانے والوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی مشرک کی بخشش کے لیے دعا کریں۔ جہاں تک ابراہیم (علیہ السلام) کا معاملہ ہے انھوں نے اپنے باپ کے ساتھ ان کی بخشش کے لیے دعا کا وعدہ کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے صحابہ (رض) کی توبہ قبول کرنے کا اعلان فرماتے ہوئے مسلمانوں کو تلقین فرمائی کہ ذاتی تعلقات اور دنیاوی مفاد کی خاطر کسی کا ساتھ دینے کی بجائے ہمیشہ سچائی کی بنیاد پر لوگوں کا ساتھ دیا کرو۔ سورة کا اختتام سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ پر کیا گیا کہ آپ اپنے ساتھیوں کے لیے نہایت مشفق و مہربان ان کی غلطیوں سے درگزر فرمانے والے اور ساتھیوں کی تکلیف کو ان سے بڑھ کر اپنی تکلیف محسوس کرنے والے ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم جدوجہد، بےمثال کاوش اور شفقت و مہربانی کے باوجود اگر لوگ آپ سے اعراض کرتے ہیں تو آپ کو ان کی مخالفت اور بےاعتنائی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ ایسی صورتحال پر آپ کو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے کہ آپ کو رب عرش عظیم پر اعتماد کرنا چاہیے اس کے سوا کوئی معبود حق، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے ہر داعی کو یہ فرمان ہے کہ وہ توحید اور دین کی دعوت دیتے ہوئے مشکلات اور پریشانیوں کی پروا کیے بغیر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھے۔