تعارف
سورة کا عمود، سابق سورة سے تعلق اور ترتیب بیان
یہ سورة سابق سورة …القارعۃ… کی مثنی ہے۔ دونوں کے مضمون میں کوئی اصولی فرق نہیں ہے۔ سابق سورة میں بتایا ہے کہ آخرت میں کام آنے والی چیز وہ نیکیاں ہیں جو اس دنیا میں کرلی جائیں۔ خدا کی میزان میں انہی کے اندر وزن ہوگا۔ جس نے ان کا ذخیرہ جمع کرلیا وہ فلاح پائے گا اور جو ان سے محروم رہا اس نے، خواہ کتنا ہی خزانہ اکٹھا کرلیا ہو، اس کی میزان بالکل بےوزن رہے گی۔ حسرت واندوہ کے سوا اس کے حصہ میں کچھ نہیں آئے گا۔
اب اس سورة میں ان لوگوں کو متنبہ فرمایا ہے جنہوں نے ساری عمر اس جدوجہد میں کھپا دی کہ مال و دولت کے اعتبار سے وہ دوسروں سے آگے نکل جائیں، ان کا بنک بیلنس سب سے زیادہ ہوجائے، کاروباری میدان میں کوئی ان کا حریف نہ رہے۔ معیار زندگی کی مسابقت میں وہ سب کو پیچھے چھوڑ جائیں۔ بس اسی تگ و دو میں ان کی ساری زندگی ختم ہوگئی اور اس امر پر غور کرنے کی انہیں کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ آگے ایک یقینی مرحلہ حساب کتاب اور جزاء و سزا کا بھی آنے والا ہے جس سے بےپروا رہ کر زندگی گزارنے والوں کو جہنم سے سابقہ پیش آئے گا اور اس دن ہر ایک سے یہ پرستش بھی ہونی ہے کہ اس نے دنیا میں جو کچھ حاصل کیا کس راہ سے حاصل کیا اور اس کو کس راہ میں صرف کیا اور اللہ تعالیٰ نے جو قوتیں اور صلاحیتیں اور جو نعمتیں اس کو بخشیں ان کا کتنا حصہ اس نے بخشنے والے کی خوشنودی کے لئے استعمال کیا اور کتنا اپنے نفس اور شیطان کی خوشنودی کے لئے۔