تدبرِ قرآن - مولانا امین احسن اصلاحی
سورۃ الحج - تعارف
تعارف
سورة انبیاء ا ۔ سورة کا عمود اور زمانہ نزول یہ سورة مکی دور کی ان آخری سورتوں میں سے ہے جب مسلمانوں نے قریش کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت شروع کردی تھی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بھی ہجرت کا وقت بالکل قریب آچکا تھا۔ اس دور میں قریش کے لئے آخری انذار و تنبیہ کے ساتھ یہ سورة نازل ہوئی۔ اس میں ان کو خدا کے غضب سے ڈرایا گیا، توحید اور قیامت کی قطعیت نہایت مئوثر دلائل کے ساتھ واضح کی گئی اور حضرت ابراہیم کی دعوت اور بیت اللہ کے مقصد تعمیر کی روشنی میں ان پر یہ حقیقت واضح کی گئی کہ اس گھر کی تولیت کے اصل حقدار مشرکین نہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جن کو انہوں نے اس سے محروم کر رکھا ہے اور ان کو یہاں سے نکالنے کے لئے ان پر ہر قسم کے ظلم و ستم ڈھا رہے ہیں۔ فتح مکہ کی طرف اشارہ تو پچھلی سورة کی آیت ٤٤ میں بھی گزر چکا ہے، اس سورة میں اس اشارے نے بالکل قطعی فیصلہ کی صورت اختیار کرلی ہے۔ اس میں قرش کو غدار اور غاصب قرار دے کر ان کو اس گھر سے بےدخل کئے جانے کی دھمکی اور مسلمانوں کو بشارت دی گئی کہ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے گا اور قریش کو اس سے بےدخل کر کے ان کو اس کا امین و متولی بنائے گا۔ یہ سورة مکی ہے یہ سورة اپنے مزاج و مطالب کے اعتبار سے مکی ہے۔ اس کی صرف چار آیات (41-38) ہجرت کے بعد کی ہیں جس میں مسلمانوں کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ اگر حج کے لئے جائیں اور کفار قریش ان کو بزور روکنے کی کوشش کریں تو ان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مدافعت میں تلوار اٹھائیں۔ اللہ ان کی مدد فرمائے گا۔ یہ بات چونکہ اوپر والی بات ہی کی وضاحت کی حیثیت رکھتی ہے اس وجہ سے مصحف کی ترتیب میں ان آیات کو یہاں جگہ ملی تاکہ اس اجازت کی حکمت واضح ہوجائے کہ مسلمانوں کو تلوار اٹھانے کا یہ حق اس لئے حاصل ہے کہ قریش کا خانہ کعبہ پر تسلط بالکل غاصبانہ ہے۔ اس کی تولیت کے اصلی حق دار مسلمان ہیں نہ کر قریش۔ انہی چند آیات کی بنا پر ہمارے مفسرین نے، اس سورة کی مکی یا مدنی ہونے کے باب میں اختلاف کیا ہے لیکن کسی مکی سورة میں چند مدنی آیتیں داخل ہو جان ی سے جب کہ ان آیات کی نوعیت بھی محض توضیحی آیات کی ہو، پوری سورة کو مدنی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ بعض آیات سورة مزمل میں بھی ہیں حالانکہ وہ بالاتفاق مکی ہے۔ ہم آگے ان آیات کی تفسیر میں واضح کریں گے کہ ان کی حیثیت اجمال کے بعد تصریح کی ہے۔ ایک بات جو مکی زندگی کے آخری دور میں فرمائی گی تھی جب مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں اس کی تفصیل نازل ہوئی تو اجمال اور تفصلن دونوں کو ایک ساتھ رکھ دیا گیا۔ صاحب کشاف نے بھی اس سورة کو، باستثنائے چند آیات، مکی ہی قرار دیا ہے۔ ب۔ سورة کے مطالب کا تجزیہ (4-1) مخالفین قرآن کو انذار کہ خدا کی پکڑا اور قیامت کا عذاب بڑی ہی ہولناک چیز ہے۔ بغیر کسی دلیل کے خدا کے شریک و شفیع گمان کر کے قیامت سے بر پواہو بیٹھنا اور شیطان کی پیروی کرنا اپنی شامت کو دوت دینا ہے۔ شیطان کا اصلی کام، جس کے لئے خدا نے اس کو مہلت دی ہے، ہدایت دنیا نہیں ہے کہ اس کی پیروی کی جائے بلکہ یہ ہے کہ جو شامت زدہ لوگ اس کی پیروی کریں ان کو وہ سیدھے جہنم میں لے جا اتارے۔ (8-5) انسان کی خلقت اور زمین کے خشک و بےآب وگیاہ ہوجانے کے بعد از سر نو سرسبز و شاداب ہوجانے سے امکان معاد پر استدلال، یہ واضح کرنے کے لئے کہ جو لوگ قیامت کے باب میں شک میں پڑے ہوئے اور اس سے بےپروا ہیں، نہ خود اپنی خلقت کی نوعیت اور اس کی حکمتوں پر غور کر رہے ہیں اور نہ اس کائنات کے روز مرہ مشاہدات پر، دو آنکھیں کھولیں او مشاہدہ عذاب کے مطالبہ کے بجائے آفاق وانفس کی نشانیوں سے سبق حاصل کریں۔ قیامت کا آنا خدا کی صفات کا ایک بدیہی اور لازمی تقاضا ہے۔ وہ لاریب آ کے رہے گی۔ (16-9) ان لوگوں کی تردید جو اپنے مزعومہ شرکاء و شفعاء کے بل پر آخرت سے نچنت اور شرک کی حمایت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بحث و مباحثہ کے لئے ہر وقت آستینیں چڑھائے رہتے۔ اس امر کی وضاحت کہ شرک کے ساتھ خدا کی بندگی کا دعویٰ ایک بالکل لا طئل دعویٰ ہے۔ جو لوگ محض اپنی ظاہری منعفتوں ہی کے حد تک خدا کی بندگی اور اطاعت کرنا چاہتے ہیں، اس راہ میں کوئی امتحان پیش آجائے تو وہیں سے وہ کترا جاتے ہیں اور دوسرے آستانوں پر جبہ سائی شروع کردیتے ہیں، خدا کے ہاں ایسے دو دلوں اور منافقوں کی کوئی پوچھ نہیں ہے۔ ایسے لوگ خسر الدنیا والآخرۃ کے مصداق ہیں۔ یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر اپنی نفعتوں کی خاطر جن کی طرف بھاگتے ہیں ان کا ضرر ان کی منفعت سے قریب تر ہے۔ نافع و ضار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اگر کوئی خدا سے مایوس ہوتا ہے تو وہ آسمان میں تھونی لگا کر اپنی سی کر کے دیکھ لے کہ اس کی کوئی بڑی سے بڑی تدبیر بھی اس مشکل کو حل کرنے والی بنتی ہے ! (24-17) مسلمانوں کو تسلی اور تمام مخالف اسلام فرقوں اور گروہوں کو آگاہی کہ ہر ایک کا رویہ خدا کی نظر میں ہے۔ کسی کا کوئی قول و فعل بھی اس سے مخفی نہیں۔ بالاخر ایک دن سب کا معاملہ خدا کی عدالت میں پیش ہوگا۔ ایک طرف وہ لوگ ہوں گے جو آج خدا کی وحدانیت اور اس کے کلمہ حق کی دعوت دے رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی بدعتوں سے خدا کے دین کو بگاڑا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ جو شرک و کفر کے مرتکب ہوئے ہوں گے ان سب کو جہنم میں داخل کرے گا اور جو توحید و ایمان پر قائم رہیں گے وہ جنت (37-25) اصل ملت ابراہیم اور بیت اللہ کے مقصد تعمیر کی وضاحت تاکہ مشرکین مکہ اور ان کے حامی اہل کتاب پر یہ حقیقت واضح کردی جائے کہ آج وہ اپنے آپ کو ملت ابراہیم اور بیتا للہ کا جو وارثو متولی سمجھے بیٹھے ہیں اور اس زعم میں خدا کے رسول اور اس کے ساتھیوں پر انہوں نے اس گھر کے دروازے بند کر رکھے ہیں اور محض ان کی برخود غلطی اور دھاندلی ہے۔ حضرت ابراہیم نے اس گھر کو اس شرک و بت پرستی کے لئے نہیں بنایا تھا جس کا ایک گڑھ بنا کے اس کو رکھ دیا گیا ہے بلکہ انہوں نے اس کو صرف خدائے واحد کی عبادت اور اسی کے حج و طواف کا مرکز بنایا تھا۔ اس ضمن میں قربانی اور دوسرے شعائر و مناسک کی اصل روح کی طرف توجہ دلائی گئی تاکہ وراثت ابراہیمی کے یہ مدعی اپنا جائزہ لیں کہ حضرت ابراہیم کیا تعلیم دے گئے تھے اور انہوں نے ان کی تعلیم کو کس طرح مسخ کیا ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ آج اللہ کے جو بندے ملت ابراہیم کا احیاء کر رہے ہیں ان کو یہ اس گھر سے نکالنے پر تلے ہوئے ہیں۔ (41-38) یہ چار آیتیں مدنی ہیں مسلمان، مدینہ سے ہجرت کو جانے کے بعد، جب ایک منظم جماعت بن گئے تب یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر وہ حج کیلئے جائیں اور کفار روکیں تو ان کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے ؟ یہ سوال اس وجہ سے بڑی اہمیت رکھتا تھا کہ اشہر حرم اور خاص طور پر حدود حرم میں جنگ زمانہ جاہلیت میں بھی حرام سمجھی جاتی تھی۔ قریش اشہر حرم اور حرم کی اس حرمت کو اپنے لئے ایک سپر بنائے ہوئے تھے اور مسلمان بھی اس حرمت کے منانی کوئی اقدام کرنے کی جرأت اس وقت تک نہیں کرسکتے تھے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو اجازت نہ ملے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اجازت دے دی کہ اگر اس طرح کی کسی جنگ کی نوبت آئے تو تم بھی جنگ کرو۔ یہ جنگ اشہر حرم یا حرم کی حرمت کے منافی نہیں ہے بلکہ یہ بیت اللہ کی تطہیر کے لئے ایک مقدس جہاد ہے اور اگر تمہیں قوت حاصل ہو تو تو بیت اللہ کو اس کے غاصب قابضوں سے آزاد کرانا تمہارا فریضہ ہے۔ ساتھ ہی جہاد کی یہ حکمت بھی واضح فرما دی کہ اگر اس طرح کی جنگ بھی تقویٰ کے منای سمجھی جائے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ تمام مساجد، جو اللہ واحد کی عبادت کے لئے تعمیر ہوئیں، کفار و شیاطین کے حوالے کردی جائیں کہ وہ ان کو ڈھا کر رکھ دیں یا ان کو بت خانہ بنا ڈالیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو اس جنگ سے نہ ہچکانا چاہئے نہ مخالفوں کے طعنوں کی پروا کرنی چاہئے۔ اگر اس راہ میں جنگ پیش آئی تو ان کی قلت تعداد اور بےسروسامانی کے باوجود، خدائے قوی و عزیز ان کی مدد فرمائے گا تاکہ جب ان کو سر زمین حرم میں اقتدار حاصل ہو تو وہ اس کو شرک و کفر کی تمام نجاستوں سے پاک کر کے اس کے ان مقاصد کا احیاء کریں جن کے لئے حضرت ابراہیم نے ان کو آباد کیا تھا۔ تطہیر بیت اللہ کے لئے جہاد کی یہ اجازت چونکہ اسی بات کا ایک لازمی نتیجہ تھی جو اوپر والے پیرے میں بیان ہوئی کہ قریش کا اس گھر پر قبضہ غاصبانہ ہے، انہوں نے اس کے مقاصد برباد کر کے رکھ دیئے ہں، اس وجہ سے جب یہ آیتیں نازل ہوئیں تو گویہ نازل مدینہ میں ہوئیں لیکن ترتیب میں ان کو جگہ یہاں دی گئی تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ صورت حال کے تقاضے سے یہ اجازت دی گئی۔ (52-42) تاریخ کی شہادت کہ اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے ان کی قوموں کو جو تہدید فرمائی وہ بالآخر پوری ہو کے رہی کوئی قوم بھی اپنے رسول کی تکذیب کے بعد صفحہ ارض پر قائم نہ رہ سکی۔ صرف ان کی عظیم عمارتوں کے کھنڈر باقی رہ گئے جو عبرت کے لئے کافی ہیں بشرطہکذ نہ دیکھنے والی آنکھیں ہوں لیکن جن کے دل اندھے ہوچکے ہوں ان کا علاج کسی طبیب کے پاس بھی نہیں ہے۔ جو لوگ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عذاب کے لئے جلدی مچائے ہوئے تھے ان کو جواب کہ خدا کی تقویم تمہاری تقویم سے مختلف ہے۔ اس کے ہاں جکا ایک دن تمہارے ہزار سالوں کی طرح ہے تو جلدی نہ مچائو خدا کی بات پوری ہو کے رہے گی۔ خدا نے جس طرح پچھلی قوموں کو مہلت دی اسی طرح تمہیں بھی مہلت دی ہے لیکن جس طرح ان پر عذاب آ کر رہا اسی طرح تم پر بھی، اگر تم اپنی ہٹ سے باز نہ آئے، عذاب آ کے رہے گا۔ رسول کا کام انذار وتبشیر ہے۔ عذاب کا فیصلہ خدا کے اختیار میں ہے۔ (57-53) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ تمہایر یہ مخالفین تمہاری دعوت کی مخالفت میں جو جھاڑ کے کانٹے کی طرح تمہارے پیچھے پڑگئے ہیں، رسولوں کی تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر رسول کو اسی طرح کے حالات سے سابقہ پیش آیا ہے۔ جب کبھی کسی رسول یا نبی نے اصلاح احوال کی راہ میں کوئی حوصلہ کیا ہے شیاطین نے اسی طرح اس کے حوصلہ کی راہ مارنے کی کوشش کی ہے اور اس میں اڑنگے ڈالے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ہمیشہ شیاطین کی وسوسہ اندازیوں کو مٹاتا اور اپنی باتوں کو غالب و فتحمند کرتا رہا ہے۔ شیاطین کو اللہ نے وسوسہ اندازی و خاک بازی کی یہ مہلت اس لئے دی ہے کہ یہ چیز حق کے سچے حامیوں اور بوالہوسوں میں وجہ امتیاز ہو جو لوگ حق کے طالب ہوتے ہیں شیاطین کے پروپیگنڈے سے ان کا ایمان نکھرتا اور ان کا علم پختہ ہوتا ہے اور جو بوالہوس اور منافق ہوتے ہیں ان کی ضلالت پختہ سے پختہ تر ہوجاتی ہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ ان کے اور اہل حق کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ جو اہل حق ہوں گے اس امتحان سے گزرنے کے بعد آخرت کی بادشہی کے وارث ہوں گے اور اہل باطل جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ (64-58) جو لوگ اس دور میں ہجرت کرچکے تھے یا اس کے لئے پابرکاب تھے ان کو دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی کی بشارت اور خدا کی صفات اور آفاق کی شہادت سے اس بشارت کی تائید کے دلائل۔ (70-65) کفار کی طرف سے مطالبہ عذاب کے باوجود ان کو جو مہلت ملی ہوئی تھی اس کی حکمت کی طرف اشارہ کہ خدا رحمت کرنے میں جلدی کرتا ہے، قہر کرنے میں وہ بڑا دھیما ہے۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کہ اب تم ان کا معاملہ اللہ کے حوالہ کرو۔ خدا قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور یہ چیز خدا کے لئے نہایت آسان ہے۔ (76-71) شرک اور شفاعت باطل کے نظریہ پر آخری ضرب تاکہ مشرکین پر یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ جن شرکاء و شفعاء کے اعتماد پر وہ آخرت سے بےپروا ہیں وہ خدا کی عدالت میں ذرا بھی ان کے کام آنے والے نہیں ہیں۔ (78-77) خاتمہ سورة جس میں مسلمانوں کو بحیثیت جماعت خطاب کر کے خدا کی عبادت اور اس کی راہ میں جہاد کی تاکید فرمائی گئی ہے کہ اب ملت ابراہیم کے وارث تم ہو، خدا نے تم کو مسلم کے لقب سے ممتاز فرمایا اور اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ خدا کے رسول نے جس طرح تم پر حق کی گواہی دی اسی طرح تم خلق پر حق کی گواہی دینے والے بنو۔ نماز و زکوۃ کا اہتمام کرو، خدا پر جمے رہو۔ وہی تمہارا مولیٰ ہے اور وہ بہترین مددگار ہے۔ “ مطالب کا یہ تجزیہ پوری سورة کا نظام واضح کردینے کے لئے کافی ہے۔ اب ہم اللہ کا نام لے کر سورة کی تسیر شروع کرتے ہیں۔ وبید اللہ التوفیق
Top